Mazhabi Ham aahangi w ittehad Hindustan ki Shanakhtمذہبی ہم آہنگی و اتحاد ہندوستان کی شناخت
مذہبی ہم آہنگی و اتحاد ہندوستان کی شناخت
محمد راشد خان
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب و ادیان کے ماننے والے صدیوں سے آباد ہیں۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیاں اتحاد و ہم آہنگی کے لئے ہندوستان پوری دنیا میں اپنی شناخت رکھتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس اتحاد و ہم آہنگی کودرہم برہم کرنے کے لئے کوشش نہیں کی گئی لیکن ایسی کوشش کرنے والوں کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔ معروف اسکالر مولانا خالف سیف اللہ رحمانی نے اس سلسلہ میں بڑا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کے بعد جب آزادی کی لڑائی شروع ہوئی تو مسلمانوں اور غیر مسلموں نے مل کر اس جنگ میں حصہ لیا۔ اگرچہ انگریزوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کبھی کبھی اس صورت حال میں رخنہ بھی پڑتا تھا اور ہندو مسلم فسادات کی نوبت بھی آجاتی تھی لیکن بحیثیت مجموعی 1947ء تک اتحاد کی یہ فضاء بڑی حد تک باقی رہی، افسوس کہ ملک کی آزادی ملک کی تقسیم کی صورت میں سامنے آئی، اور وطن عزیز دو حصوں میں بٹ گیا، یہ بہت بڑا سانحہ تھا، مشہور مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزادؒ تو آزادی پر ہندو -مسلم اتحاد کو ترجیح دیتے تھے؛ لیکن ایسے محب وطن لوگوں کی بات چل نہیں سکی، اور کچھ جذباتی لیڈروں نے ملک کے دو ٹکڑے کر دئیے، بعد کے حالات نے بتایا کہ یہ صرف زمین کے ٹکڑوں ہی کی تقسیم نہیں تھی، بلکہ اس تقسیم نے دلوں کو بھی تقسیم کر کے رکھ دیا، ہندو مسلم اتحاد کا شیش محل بھی چکنا چور ہونے لگا، انسانی خون اتنی وافر مقدار میں بہا کہ اگر ان کو ایک کھائی میں ڈال دیا جاتا تو شاید سچ مچ خون کی ندی بہہ پڑتی۔ اس خون ریزی کے بعد محب وطن قائدین نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کی اور آہستہ آہستہ یہ زخم مندمل ہونے لگا۔
ہندوستان کی مشترکہ اقدار کی جڑیں کتنی گہری ہیں اس کے لئے دو عظیم ہندوستانی سپوت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی پنڈت مدن موہن مالویہ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈالنا مفید ہوگا۔ یہ وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے دنیا کو مذہب کے چشمے سے نہیں دیکھا بلکہ وسیع النظری اور مضبوط یقین ان کا اصول تھا جس سے لوگ منتشر ہونے کے بجائے متحد ہوسکیں۔ پنڈت مالویہ کا کہنا تھاکہ ”ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے بلکہ یہ مسلم، عیسائی اور پارسیوں کا بھی ملک ہے۔ یہ ملک اسی وقت طاقتور ہوسکتا ہے اور ترقی کی منزلیں طے کرسکتا ہے جبکہ پورے ملک کے تمام باشندے بھائی چارہ اور محبت کے ساتھ رہیں۔ سرسید بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ ہوکر نکلنے والوں کے بارے میں کہتے تھے کہ ”یہ لوگ زمین کے طول وعرض میں پھیل جائیں اور اخلاق، مروت، رواداری اور آپسی افہام و تفہیم کا درس دیں“۔ حالانکہ سرسید اور مالویہ میں کوئی مذہبی رشتہ نہیں تھا لیکن یہ بات بغیر کسی شبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ ان کے مابین ایک روحانی رشتہ ضرورتھا۔ یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ ا ن کی روحیں ایک دوسرے کی دوست تھیں۔ ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد کتنی مضبوط ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقسیم ملک کا زخم بھی اس کی بنیاد کو ہلا نہیں سکا اور آزادی کے بعد مختلف مقامات پر ہونے والے سیکڑوں فسادات بھی اس اتحاد کو متزلزل نہ کرسکے۔ مذہبی ہم آہنگی اور باہمی اتحاد و یگانگت ہندوستانی عوام کے خون میں شامل ہے۔ اس اتحاد و یگانگت کوبرقرار رکھنے بلکہ فروغ دینے میں کہیں نہ کہیں سیاسی پارٹیوں اور رضاکار تنظیموں کا بھی اہم رول ہے۔ خاص طور سے رضاکار تنظیموں کا رول بہت اہم ہے۔ ہندوستان بھر میں بہت سی غیرسرکاری تنظیمیں ہیں جو انسانی بنیاد پر لوگوں کی خدمت کرنے اور تمام انسان بھائی بھائی ہیں اس پیغام کو موثر انداز میں لوگوں تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔ اس سلسلہ میں سنت نرنکاری مشن اور آل انڈیا پیام انسانیت فورم کا خاص طور سے نام لیا جاسکتا ہے جن کا مشن ہی انسانیت و بھائی چارہ کے پیغام کو عام کرنا ہے۔ سنت نرکاری مشن انسانی بہبود کے لئے وقف ادارہ ہے جو وسیع پیمانے پر کام کرتا ہے۔ اس کی شروعات 1929 میں بابا بوٹا سنگھ نے پیشاور میں کی تھی۔ تقسیم ملک کے بعد 1948 میں ہندوستان میں اس کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ مشن ہندوستان سمیت مختلف ممالک میں سرگرم عمل ہے۔ ہندوستان میں اس کے تقریباً3000 مراکز ہیں اور لاکھوں لوگ اس مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ آل انڈیا پیام انسانیت فورم کو معروف اسکالر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے 70 کی دہائی میں قائم کیا تھا جس کا مقصد بلاتفریق انسانوں کی خدمت اور محبت کا پیغام عام کرنا تھا جس پر تنظیم اپنے قیام سے ہی سرگرم عمل ہے بلکہ اب اس نے اپنے دائرہ عمل میں وسعت بھی کی ہے۔ پہلے اس تنظیم کے تحت صرف عوامی جلسے کرکے انسانی پیغام کو عام کیا جاتا تھا لیکن اب مختلف مقامات پر جلسوں و کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم دیگر انسانی خدمات بھی انجام دے رہی ہے۔ مثال کے طور پر کسی مصیبت کے موقع پر تنظیم ریلیف کا کام کرتی ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں میں وسیع پیمانے پر کھانے وکپڑوں و دیگر اشیاء کی تقسیم کرتی ہے۔ کورونا مدت میں بھی تنظیم نے لوگوں کی بھرپور مدد کی۔ اشیائے خوردنی کی تقسیم کے ساتھ ہی دواؤں کی کٹ بھی لوگوں کو مہیا کرائی۔ ویکسی نیشن کیمپ لگوانے میں بھی اہم رول ادا کر رہی ہے۔ دو تنظیموں کا نام محض بطور مثال لیا گیا، ورنہ ملک میں بے شمار تنظیمیں ہیں جن کا مشن ہی مذہبی آہنگی برقرار رکھنے اور اتحاد و یگانگت کے پیغام کو عام کرنا ہے۔ اس کے نمونے جگہ جگہ کورونا کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن کے موقع پر دیکھنے کو ملے۔ ایسے وقت میں جب لوگوں کو اور خاص طور سے ان لوگوں کو جو اپنے گھروں سے دور روزی روٹی کمانے کے لئے بڑے بڑے شہریوں میں رہ کر اپنے اور اپنے کنبوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے محنت مزدوری کر رہے تھے ان کو بھوکوں مرنے کی نوبت آگئی اور حکومتوں کے لئے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سنبھالنا ایک چیلنج بن گیا ایسے وقت میں ہندوستان کی قومی یکجہتی اور انسان دوستی کے عدیم المثال نظارے دیکھنے کو ملے۔ نہ صرف رضاکار تنظیموں بلکہ انفرادی طور پر بھی لوگوں نے پریشان حال لوگوں کی ایسی خبرگیری کی جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ گاڑیاں اور بسیں بند ہونے کی وجہ سے لوگ سائیکلوں، موٹر سائیکلوں، ٹرکوں سے اور جس کے پاس کوئی بند و بست نہیں تھا وہ پیدل ہی اپنی منزل کی طرف چل پڑے۔ لوگوں کی چپلیں تک ٹوٹ گئیں، بھوکے پیاسے چلتے رہے۔ ایسے مشکل وقت میں پوری دنیا نے ہندوستان کی جڑوں میں پیوست قومی یکجہتی اور مذہبی ہم آہنگی کے خوشگوار مناظر دیکھے۔ لوگ ہر شاہراہ پر کھانوں کے پیکٹوں، پھلوں کے ساتھ کھڑے رہتے اور ہر آنے والے کو پیش کرتے۔ جن کے پیروں میں چپلیں نہیں تھیں انھیں چپلیں مہیا کراتے۔
گاندھی جی جو ہندو- مسلم اتحاد سے بہت بڑے علمبردار تھے، انھوں نے اپنی کتاب ’انڈیا آف مائی ڈریمس‘ میں لکھا کہ ہے کہ میرا خواب ہے کہ ایک ایسا ہندوستان وجود میں آئے جہاں غریب سے غریب انسان بھی یہ سوچے کہ یہ ملک اس کا ہے اور یہاں اس کی آواز کو برابر کی اہمیت حاصل ہے۔ ایک ایسا ہندوستان جہاں اعلیٰ اور ادنی طبقے کا کوئی تصور ہی نہ ہو، ایسا ملک جہاں ہر مذہب کے لوگ امن اور بھائی چارہ کے ساتھ رہ سکیں۔ ایسا ہندوستان جہاں چھوا چھوت کی کوئی جگہ نہ ہو، جہاں نشہ کرنے کا کوئی تصور نہ ہو۔ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہوں۔ بہرحال قومی یکجہتی اور مذہبی آہنگی کی مضبوط بنیادوں کے باوجود ہمیں گاندھی جی کے خوابوں کو صحیح معنوں میں شرمندہئ تعبیر کرنے کے لئے اس سمت میں مزید کام کرنے اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جہاں ہیں وہیں سے اس کا آغاز کرنا چاہئے۔ ٭٭
Comments
Post a Comment