hayatullah ansari حیات اللہ انصاری

آفتاب ادب و صحافت:حیات اللہ انصاری
٭محمد راشد خان ندوی
دنیا میں کچھ شخصیتیں جامع کمالات ہوا کرتی ہیں، حیات اللہ انصاری ان میں سے ایک تھے۔ وہ ادب و صحافت کا آفتاب عالم تاب تھے۔ بیک وقت افسانہ نویس، ناول نگار، صحافی، ماہر تعلیم اور سیاسی رہنما تھے۔ وہ ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے کہ جس میدان میں بھی انھوں نے قدم رکھا کامیابی کی بلندی پر پہنچے۔ کسی بھی شخصیت کے تشکیلی عناصر میں اس کے حالات زندگی کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ کبھی کبھی انتہائی ناگفتہ بہ حالات کچھ چیزوں کے بہتر نتائج کا سبب بن جاتے ہیں۔ زبان و ادب عموماً مشکل حالات میں ترقی کی بلندیوں پر پہنچتے ہیں۔ حیات اللہ انصاری کی شخصیت کی تعمیر میں بھی ان کے دور کے حالات معاون و مددگار بنے اس لئے حیات اللہ انصاری کی شخصیت شناسی اور ان کی فن شناسی کے لئے ان کی زندگی اور اس وقت کے حالات پر سرسری نگاہ ڈالنی ضروری ہے۔ حیات اللہ انصاری ولد مولوی وحید اللہ انصاری لکھنؤ کے محلہ فرنگی محل میں پیدا ہوئے۔ ان کی تاریخ پیدائش میں زبردست اختلافات ہیں۔ بعض محققین نے مئی 1901ء، بعض نے 1908ء اور بعض نے 11مئی1911ء ان کی تاریخ پیدائش لکھی ہے، جبکہ انتقال 18فروری 1999ء کو ہوا۔ انھوں نے جب شعور کی آنکھیں کھولیں تو ہندوستان انگریزوں کی غلامی میں جکڑا ہوا تھا جس سے آزادی حاصل کرنے کے لئے لوگ بیدار ہوچکے تھے، تحریکیں چل رہی تھیں۔ دوسری طرف 1916ء میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا۔ جنگ میں انگریزوں کی کارکردگی اور جرمنی کے مظالم کی تشہیر کے لئے انگریزوں نے ایک ہفتہ وار اخبار ’لڑائی‘ نکالا۔ انگریزوں کے دور حکومت کے مظالم، سماجی عدم مساوات، عام لوگوں کی غربت اور ان کے استحصال کو حیات اللہ انصاری نے بہت قریب سے دیکھا۔ مالدار طبقہ کس طرح غریب طبقے کا استحصال کرتا تھا اس کا انھوں نے بچشم خود مشاہدہ کیا تھا۔ یہ ایک پرآشوب دور تھا۔ انگریزوں کے تسلط سے آزادی کے لئے تحریکیں کھڑی ہو رہی تھیں۔ 2جماعتوں کا زیادہ غلغلہ تھا انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ۔ گاندھی جی کی سول نافرمائی، نمک اور سودیشی تحریکوں کے ساتھ ہی خلافت تحریک بھی عروج پر تھی۔ موہن داس کرم چند گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، بال گنگا دھر تلک، ڈاکٹر مختار انصاری، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا حسین احمد مدنی سمیت متعدد سرکردہ رہنما تحریک آزادی میں پیش پیش تھے۔ بالآخر 1947ء میں ملک آزاد ہوا، پھر ملک تقسیم ہوگیا۔ مذہب کی بنیاد پر پاکستان کے نام سے الگ مملکت وجود میں آگئی۔ پورا ملک آگ و خون کی زد میں آگیا۔ ان سب حالات کو بہت قریب سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ حیات اللہ انصاری نے اس دور میں چل رہی ادبی و صحافتی سرگرمیوں کو بھی نہ صرف دیکھا بلکہ اس میں عملی طور پر حصہ بھی لیا۔ انھوں نے پہلے انگریزوں کے خلاف قلم اٹھایا اور جب تقسیم کا مسئلہ سامنے آیا تو قیام پاکستان کی تجویز اور مسلم لیگ کی مخالفت کی طرف اپنے قلم کا رخ موڑ دیا اور تقسیم ملک کے بعد ان کا قلم ہر طرح کی فرقہ پرستی کے خلاف شمشیر برہنہ بن گیا۔
حیات اللہ انصاری کا بچپن عسرت و تنگی میں گزرا، چونکہ فطرتاً صابر و شاکر تھے اس لئے انتہائی مشکل حالات میں بھی خود کو ثابت کیا اور قلمی جہاد کو اپنا وطیرہ بنایا۔ اس کا آغاز انھوں نے افسانہ نگاری سے کیا اور اپنے پہلے افسانہ سے ہی وہ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کا پہلا افسانہ ’بڈھا سودخور‘ 1930ء میں رسالہ جامعہ میں شائع ہوا جو ان کے لئے سنگ میل بن گیا۔ بعد میں انوکھی مصیبت، بھرے بازار میں، شکستہ گنگورے اور ٹھکانہ کے نام سے چار افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔ ڈاکٹر عشرت ناہید نے اپنی مرتب کردہ تحقیقی کتاب ”حیات اللہ انصاری کی کہانی کائنات میں“ ان چاروں مجموعوں میں شامل افسانوں کے علاوہ پانچ دیگر افسانوں ”لڑکا بھی گیا، سلام کہہ دینا، ہنستے آنسو، نکسیر، نیا بھیس“ کا حوالوں کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
حیات اللہ انصاری کے افسانوں میں حقیقت بیانی اور موضوعات میں تنوع ہے۔ انھوں نے ’بڈھا سودخور‘ میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستانی سماج میں لڑکیوں کی شادی کرنا کتنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ گھر کا سربراہ اپنے و اپنے افراد خانہ کے علاج تک کی فکر نہیں کرتا، نہ ہی پیٹ بھر کھانے کی فکر ہوتی ہے، بس لڑکی کی شادی کے لئے پیسہ جمع کرنے کی فکر رہتی ہے۔ ’بھرے بازار‘ میں انھوں نے سماج کی کمزور رگ پر ہاتھ رکھا ہے اور خوش پوش انسانوں کی باطن کی گندگی کو بے نقاب کیا ہے۔ ’کمزور پودا‘ میں غربت کی لاچاری اور ایک غریب گھر کی لڑکی کے جنسی استحصال کی کہانی کے سہارے زمینداروں کی ذہنیت کی زبردست عکاسی کی ہے۔ ’ڈھائی سیر آٹا‘ اور ’آخری کوشش“ میں مفلسیو پریشاں حالی کی ایسی برہنہ تصویر کشی کی گئی ہے جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آخری کوشش حیات اللہ انصاری کا طویل ترین اور شاہکار افسانہ ہے۔ ’ادا یا قضا‘ میں خدمت خلق کی اہمیت بتانے کی کوشش کی گئی۔ ’پرواز‘ میں انھوں نے تبرا اور مدح صحابہ کے حوالے سے لکھنؤ کی زوال پذیر تہذیب کو واشگاف کیا ہے کہ کس طرح دو فرقے اپنی توانائی اس پتنگ کے بیچنے، خریدنے، اڑانے و کاٹنے میں صرف کر رہے ہیں جس پر تبرا یا مدح صحابہ لکھا ہوا ہے۔ افسانہ نگار نے مزاحیہ پیرایہئ بیان میں اس حساس موضوع کے ذریعہ جذباتیت پر زبردست ضرب لگائی ہے۔ ’سہانا سپنا‘ بھی طنزیہ لہجہ میں لکھا گیا افسانہ ہے۔ ’ہانمت‘ قدیم سائنس کے حوالے سے ڈائری کے فارم میں لکھا گیا افسانہ ہے جو موجودہ عدالتی نظام کی منظرکشی کرتا ہے۔ ’شکستہ کنگورے‘ جد و جہد آزادی کے پس منظر میں ایک مسلم خاندان کے شکست و ریخت کی کہانی ہے جبکہ ’ماں بیٹا‘ آزادی کے بعد ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا ہے اور انسان دوستی کو ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسانہ ’بارہ برس بعد‘ میں ’انا‘ اور اس کے نتائج کو مو ضوع بنایا گیا ہے۔ ’موزوں کا کارخانہ‘ ایک قلمکار اور ایک بچے کی نفسیاتی گرہ کشائی کا مظہر ہے۔ ’بھیک‘ میں یتیم بچوں کی کسمپرسی کی عکاسی ہے۔ ’شکر گزار آنکھیں‘ میں جرم کے بعد کی ندامت کی منظرکشی ہے۔ ’سربستہ راز‘ میں اچھائی و برائی کی کشمکش کو پیش کیا ہے۔ ’مبارک ہو‘ رشتوں کوجوڑنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ ’خلاص‘ میں فٹ پاتھ پر ہوش سنبھالنے والی ایک بچی کے حوالے سے اس قبیل کے لوگوں کی ذہنیت اجاگر کی گئی ہے۔ ’سلام کہہ دینا‘ اپنے وطن سے دور دوسرے ملک میں آباد ہونے والوں کے درد کی کہانی ہے۔ ’اندھیرا اجالا‘ میں جیب کتروں کی کہانی بیان کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بدی کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ ’ٹھکانہ‘ میں انسانوں کی رہائش اور حکومت کے ذریعہ غریبوں و بااثر لوگوں کے درمیان امتیاز برتے جانے کو موضوع بنایا ہے۔ ’دیوار بیچ‘ میں نفسیات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’آخور کا تحفہ‘ ایک فطری محبت کا بیان ہے۔ افسانہ ’بے وقوف‘ میں سماج اور قوم کے لئے جذبہئ ایثار و قربانی کو پیش کیا گیا ہے۔ ’انوکھی مصیبت‘ میں درس مساوات کے لئے ایک انوکھی مصیبت کا بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔
ایک کامیاب افسانہ نویس میں قوت مشاہدہ،کثرت مطالعہ اور نفسیاتی حس کا ہونا بہت ضروری ہے۔ حیات اللہ انصاری میں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اظہار احمد نے ان کی افسانہ نگاری کا بالکل مناسب تجزیہ کیا ہے:
”حیات اللہ انصاری کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی ان کا اپنا مشاہدہ ہے۔ ایسی قوت مشاہدہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔ وہ اگر سڑک پر چلتے ہیں اور سڑک کے کنارے کوئی جھونپڑی دیکھتے ہیں تو لمحوں کے اندر وہ ایک غریب بن کر اس جھونپڑی کے اندر برسوں رہ لیتے ہیں، وہیں ان کے ان پڑھ میلے کچیلے بچے پلتے بڑھتے ہیں، وہیں ان پر پولیس کے مظالم بھی ہوتے ہیں، جھونپڑی اجاڑی بھی جاتی ہے اور لمحوں میں حیات اللہ صاحب برسوں کے اس کرب سے گزر جاتے ہیں۔ اس کے بعد جب وہ اس جھونپڑی پر اور اس کے باسیوں پر افسانہ لکھنے بیٹھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ برسوں اس جھونپڑی میں سوئے ہیں۔“
(اداریہ ’معلم اردو‘ حیات اللہ انصاری نمبر، شمارہ 45، ص:14)
حیات اللہ انصاری نے کم مدت تک افسانہ نگاری کی اور کم افسانے لکھے مگر جتنے بھی افسانے لکھے وہ اپنا نقش چھوڑنے میں کامیاب رہے، بعض افسانوں نے تو شاہکار کی حیثیت کرلی۔
افسانوں کے بعد انھوں نے ناولوں پر توجہ کی اور یکے بعد دیگرے تین ناول ”لہو کے پھول، مدار اور ٹھکانہ“ وجود میں آئے اور تینوں کامیاب ناول ثابت ہوئے۔ آخرالذکر ناول ٹھکانہ 1992 میں منظر عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کی۔ حیات اللہ صاحب نے اپنے ناول ’مدار‘ میں علامتوں کے پردے میں درحقیقت اپنی محبوب زبان اردو کی بے بسی اور بے وطنی کو پیش کیا ہے۔ اس میں ایک فوجی افسر اور ایک لڑکی ’روز‘ کے اردو گرد کہانی بنی گئی ہے۔ معروف ناقد ڈاکٹر محمد حسن کے لفظوں میں:
”(مدار کا) موضوع تو بظاہر صرف اتنا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان جذباتی رشتے کیسے ہی مستحکم کیوں نہ ہوں لطف ہم زبانی حاصل نہ ہو تو زبان کی یگانگت کو ختم کردیتی ہے اور روز جیسی عورت اس ناول کے ہیرو جیسے دردمند سے منھ موڑ کر اپنی زبان اور اپنی تہذیب سے تعلق رکھنے والے نسبتاً کم مرد اور بوڑھے مرد کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ اس بات کو مصنف نے بڑے چھوٹے چھوٹے اور خوبصورت اشاروں اور علامتوں سے ظاہر کیا ہے۔ یہ موضوع حیات اللہ انصاری کے دیباچہ اور انتساب سے اور زیادہ تیکھا ہوگیا ہے۔ اردو والوں کو بھی تو ہندوستان میں یہی صورت حال درپیش رہتی ہے۔ ان سے ان کی مادری زبان چھین لی گئی ہے۔ روز کو بالآخر اس کا ہم زبان اور ہم وطن مل گیا ہے۔ اردو والے بھی اس کی تلاش میں ہی ہیں اور روز کی طرح باتیں کرتے کرتے کسی ایسے لفظ کی تلاش میں کھو جاتے ہیں جو ان کی اپنی زبان میں موجود ہے مگر جسے ان کے ہم کلام ہم وطنوں نے سمجھنے سے انکار کردیا ہے۔“
(معلم اردو، حیات اللہ انصاری نمبر)
اول الذکر ناول ’لہو کے پھول‘ نہ صرف حیات اللہ انصاری کا بلکہ اردو کا سب سے طویل ناول ہے۔ پانچ جلدوں میں 26 سو صفحات پر محیط یہ ناول اردو ناول نگاری کے ذخیرہ میں قابل فخر اضافہ ہے اور کسی بھی زبان کے ناول سے آنکھیں چار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ’لہو کے پھول‘ میں ملک کے اندر خودداری کی بیداری کیسے پیدا ہوئی، مطالبہ آزادی نے کس طرح زور پکڑا، خود مختاری کی آواز کس طرح اٹھی اور کن حالات میں انگریزوں کے خلاف طبل جنگ بجا، اہل ملک کس طرح متحد ہوئے پھر دو قومی نظریوں کا وجود ہوا، آزادی کے متوالوں کے نعرے، پولیس کی دھڑپکڑ، خلافت تحریک سمیت تحریک آزادی کے تمام چھوٹے بڑے واقعات و سرگرمیوں کی منظرکشی کی گئی ہے۔ مثالی ضخامت کے باوجود ناول قاری کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا، پڑھنے والے کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے اور کسی بھی ناول یا افسانہ کی کامیابی کے لئے اس سے بڑی کوئی دلیل نہیں ہوسکتی کہ آخری سطر تک اس کی گرفت قاری پر ڈھیلی نہ پڑے۔ اردو کی بے باک فکشن نگار عصمت چغتائی نے ’لہو کے پھول‘  پر طویل اور بے باک تبصرہ کیا ہے، چند اقتباسات 
:ملاحظہ فرمائیں
”ضخامت دیکھ کر پھریریاں آنے لگیں مگر جب جی کڑا کرکے پہلی جلد اٹھائی تو ناول میری جان کو آگیا۔ پہلا باب عرصہ ہوا ایک رسالہ میں پڑھ چکی تھی، بہت چوٹ لگی تھی دل میں۔ رات دن کرکے ناول ختم کیا تو سستانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آتا اتنے عظیم ناول کے تخلیق کار کو مبارکباد دوں یا ساری دنیائے ادب کو۔ ہندوستان میں ایسا قدآور ناول پہلی بار لکھا گیا ہے۔ وار اینڈ پیس اور کوائٹ فلوزوں ڈان کے معیار والی چیز ہے کیرکٹر اتنے جانے پہچانے کہ معلوم ہوتا ہے پڑھنے والے پر ہی سب کچھ بیت رہا ہے۔ خاص طور پر دیہات میں رہنے والوں کے جذبات، رہن سہن اور مشکلات کی تشریح تو اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جس باریکی سے آپ نے انھیں سمجھا ہے، پہچانا ہے، ان سے پیار کیا ہے، نفرت کی ہے، انھیں سراہا ہے، دھتکارا ہے وہ بے انتہاء موثر ہے۔ نوابوں، راجاؤں سے لے کر بھنگی چمار تک ہر کردار کے دل میں اتر کر جس طرح آپ نے محسوس کیا ہے اور لکھا ہے وہ قابل تحسین بھی ہے اور قابل رشک بھی۔ …………وش کنیا (اوشا) اس ناول میں نہیں کھپتی، ایک دم معلوم ہوتا ہے کہ اڑ کر طلسم ہوش ربا والے ماحول میں پہنچ گئے۔ جو لوگ زہر پیتے ہیں وہ خود زہریلے نہیں ہوجاتے کہ انھیں چھوا جائے تو جھٹ سے دم نکل جائے۔ …………آپ چونکہ کانگریسی ہیں اس لئے آپ نے کسی دوسری پارٹی کی اہمیت کو ناول کے لئے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ مسلم لیگ کو آپ نے بالکل فلمی ہیرو بنا ڈالا ہے۔ کوئی کل ہی سیدھی نہیں۔ کمیونسٹوں کو بالکل لونڈوں کی پارٹی ظاہر کی ہے۔ اگر مسلم لیگ اور کمیونسٹوں پر چھینٹے نہ کسے جاتے تب بھی ناول کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ …………سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ دلچسپی برابر قائم رہتی ہے۔ کہانی بڑی ہوکر نری صحافت نہیں رہ جاتی ہے اور یہی بات اس ناول کی مقبولیت کا باعث ہوگی۔ ناول کو پڑھ کر انسان کی سخت جانی اور ہمت کا قائل ہوجانا پڑتا ہے۔ بڑے بڑے لیڈر نہیں، چھوٹے چھوٹے کچلے ہوئے پسے ہوئے انسان جنھیں کوئی بھی عذاب ختم نہیں کرپایا ہے وہ ان حالات میں جیتے ہیں، ہنستے ہیں، پیار کرتے ہیں، چٹکلے چھوڑتے ہیں، ان کی بے پناہ مجبوریاں اور ان سے ڈٹ کر مقابلہ۔ اس کے بعد بھی وہ دیوتا نہیں بن جاتے، انسان ہی رہتے ہیں، بے وقوف احمق مگر پیارے انسان۔ اس ناول میں پورا براعظم سمویا ہے۔ میں تنقید نگار نہیں، بہت سی باتیں جو محسوس کی ہیں احاطہ تحریر میں نہیں آسکتیں۔ کہاں تک گناؤں ناول کی خوبصورتیاں۔“
(معلم اردو حیات اللہ انصاری نمبر، 1985)
:کرشن چندر نے اس ناول پر یوں اظہار کیا ہے
”لہو کے پھول ایک ایسا ناول ہے، ایک ایسا ادبی دستاویز ہے جو حیات اللہ انصاری کے جادو رقم قلم کا اعلیٰ نمونہ ہے اور ہمارے اردو زبان کے کامیاب ترین ناولوں میں اس کا شمار ہوگا۔ بلاشبہ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو ادبی شاہکار کی شکل میں مدتوں مشعل راہ بن کر جیئے گا اور ماضی و حال کو سمیٹے ہوئے ہمارے آنے والے مستقبل کی راہ نمائی بھی کرے گا۔ اس ناول میں اس طوفانی رات کا ذکر ہے جسے ہم انگریزوں کی غلامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس طوفانی اندھیاری میں کوری جد و جہد کا کوندا بار بار لپکتا ہے اور ہمیں اس منزل کے قریب لے کر آتا ہے جس کی تعبیر ہم نے اپنے سینوں میں رکھی ہے۔ یہ‘لہو کے پھول‘ عوام نے اپنی شہ رگ سے کھلائے ہیں“
(معلم اردو حیات اللہ انصاری نمبر، 1985)
’لہو کے پھول‘ کا کینوس وسیع ہونے کے باوجود ناول نگار نے اس میں بکھری ہوئی کہانیوں کے تانے بانے کو ایک دھاگے میں  پروئے رکھا۔ لہو کے پھول نے حیات اللہ انصاری کو شہرت و ناموری دی اور ناول نگاری کے ممتاز مقام پر فائز کردیا۔
حیات اللہ انصاری نے افسانہ نویسی تو کچھ ہی مدت تک کی لیکن ان کی صحافت کی مدت بہت طویل رہی۔ افسانہ نویسی و ناول نگاری کے ساتھ بھی ان کا صحافتی قلم چلتا رہا اور جب افسانہ لکھنا موقوف کیا تب بھی بطور صحافی وہ لکھتے رہے۔ انھوں نے اپنی صحافت کا آغاز کانگریس پارٹی کے ترجمان اردو  ہفت روزہ ”ہندوستان“ کے ایڈیٹر کے طور پر 1937ء میں کیا۔ اس اخبار کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے اس مقصد سے جاری کیا تھا کہ ملک کے مسلمانوں کو تحریک آزادی کی طرف زیادہ سے زیادہ راغب کیا جاسکے۔ 1942 میں یہ  ہفت روزہ بند ہوگیا۔ پھر 1945ء میں جب تحریک آزادی اپنے فیصلہ کن موڑ پر تھی پنڈت نہرو نے لکھنؤ سے روزنامہ قومی آواز نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لئے اپنے ایک رفیق رفیع احمد قدوائی کو ذمہ داری سونپی۔ حیات اللہ انصاری اس کے پہلے ایڈیٹر مقرر کئے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیام پاکستان کی تحریک اپنے پورے عروج پر تھی۔ مسلم لیگ کے ترجمان روزنامہ ’تنویر‘ کی زبردست مانگ تھی۔ بتا جاتا ہے کہ تنویر کا اتنا سرکولیشن تھا کہ ایک پریس اس کو چھاپنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا، دوسری پریس سے بھی چھپوانا پڑتا تھا۔ ایسے وقت میں کانگریس نے اپنا ترجمان قومی آواز نکالا۔ ابتدا میں تنویر کے سامنے قومی آواز ’نقارخانے میں طوطی کی آواز‘ ہی ثابت ہوا لیکن تقسیم ملک کے بعد جب ’تنویر‘ بند ہوگیا تو قومی آواز کے لئے میدان خالی تھا جسے قومی آواز نے نہ صرف پُر کیا بلکہ ایک معیاری اخبار کے طور پر شہرت حاصل کی۔ یہ پنڈت نہرو، کانگریس اور قومی آواز کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں حیات اللہ انصاری کی شکل میں ایک ایسا صحافی ملا جو زبان و بیان پر قدرت رکھتا تھا، جو صحافی ہونے سے پہلے ہی افسانہ نگار کے طور پر شہرت کے بام عروج پر پہنچ چکا تھا، جس کے پاس اپنا نظریہ تھا، نظریہ کے لئے بھرپور دلائل تھے اور دلائل کو ثات کرنے کے لئے قوت اظہار کا ملکہ حاصل تھا۔ حیات اللہ انصاری نے قومی آواز کی جو ٹیم بنائی وہ بھی چندے آفتاب چندے ماہ تاب تھے۔ حیات اللہ انصاری کی قومی آواز کی ٹیم ادب، شاعری اور صحافت کا امتزاج تھی۔ انھوں نے قومی آواز کے ذریعہ اردو صحافت کو انقلابی جہتوں سے روشناس کرایا۔ بے لاگ ادایے تحریر کئے۔ فرقہ پرستی کی مخالفت ان کا خاص موضوع تھا۔ وہ ہندو فرقہ پرستی کے بھی خلاف رہے اور مسلم فرقہ پرستی کے خلاف بھی سینہ سپر رہے۔ انھوں نے قومی آواز کے معیار کو خبر اور زبان دونوں اعتبار سے بہتر بنانے کے لئے نئے نئے تجربے کئے۔ اردو کے ثقیل الفاظ کو سہل بنانے پر توجہ دی، عام فہم اصطلاحات کو رواج دیا، اردو کے املا میں ترمیم کی، مثلاً ہندوستان سے واؤ حذف کرکے ہندستان، غنڈہ کی جگہ گنڈہ اور بین الاقوامی کی جگہ بین اقوامی لکھنے کا التزام کیا۔ (حالانکہ املا میں ترمیم قومی آواز تک ہی محدود رہی،  اسے قبول عام حاصل نہ ہوسکا)۔ انھوں نے خبروں کے ساتھ ساتھ ادب پر بھی توجہ دی۔ اس کے لئے ہر اتوار کو چار صفحہ کا ضمیمہ شائع کرتے تھے جس میں ادب پر معیاری مضامین ہوتے تھے۔ حیات اللہ انصاری کی توجہ قومی آواز کی ان معنوی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ظاہری خوبیوں پر بھی تھی۔ چنانچہ انھوں نے ایک طرف سرخیوں کا معیار متعین کیا کہ کتنے کالم کی خبر میں کتنے الفاظ ہوں دوسری طرف کاتبوں کے لئے معیار طے کیا کہ کتنے کالم کی خبر میں کس خط کا استعمال کیا جائے۔ قومی آواز کو خوبصورت بنانے کے لئے دیگر جدتیں بھی پیدا کیں۔ انھوں نے اخبار کو منفرد بنانے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ مستقل عنوان سے کالم نگاری کی روایت بہت قدیم ہے۔ انھوں نے قومی آواز میں بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔ حیات اللہ انصاری نے قومی آواز میں ہر ذوق کے قاری کے لئے کچھ نہ کچھ دینے کی کوشش کی۔ خبروں پر بھی توجہ رہی، ادب، تفریح، طنز و مزاح اور مراسلات کو بھی جگہ دی۔ گلوریاں کے نام سے مزاحیہ کالم شروع کیا۔ مراسلات کے کالم کو صحیح معنوں میں عوام کی آواز بنادیا۔ اس کالم میں اکثر و بیشتر ادبی بحثیں چھڑی رہتی تھیں۔ تفریح کے کالم میں فلموں پر مضامین و تبصرے شائع ہوتے تھے۔ اس کے لئے ’مضراب‘ کے نام سے مستقل کالم تھا جسے محمد حسن قدوائی لکھتے تھے۔
حیات اللہ انصاری کا کہنا تھا کہ ’اگر صحافی ادبی و شعری ذوق نہیں رکھتا ہے تو پھر وہ کلرک ہے اور کلرک کبھی اچھا اخبار نہیں نکال سکتا۔‘ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حیات اللہ انصاری نے قومی آواز میں چن چن کر باکمالوں کو جمع کرلیا تھا۔ یہ ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ قومی آواز کو عشرت علی صدیقی، محمد حسن قدوائی، قیصر تمکین، مسیح الحسن رضوی، شاکر جرولی، عابد سہیل، وجاہت علی سندیلوی، متین الزماں، منظر سلیم، عثمان غنی، باقر علی رضوی، مفتی رضا انصاری، عبدالمجیب سہالوی، احمد جمال پاشا، حسن واصف عثمانی جیسے صحافی ملے۔ حیات اللہ انصاری نے قومی آواز میں ایک اور نیا تجربہ کیا تھا۔ سب ایڈیٹروں و پروف ریڈروں کے لئے انھوں نے دفتر میں ایک چارٹ لگادیا تھا جس پر ہر روز اخبار کے غلط املے کی نشاندہی کرکے اس کے صحیح املا اور کس انگریزی لفظ کے لئے کیا اصطلاح استعمال کی جائے گی اس کی پوری تفصیل درج کی جاتی تھی۔ چونکہ حیات اللہ انصاری صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب بھی تھے اور اعلی پائے کے ادیب تھے اس لئے قومی آواز میں گوشہ ادب کیسے تشنہ رہ سکتا تھا۔ انھوں نے چار صفحہ کا ہفتہ واری ضمیمہ شروع کیا جس کی ترتیب کی ذمہ داری ادبی ذوق رکھنے والے سب ایڈیٹروں کو ہی دی جاتی تھی۔ یہ ضمیمہ کسی ادبی میگزین سے کم حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ شاید ہی کوئی بڑا ادیب، شاعرو ناقد ہوگا جو اس میں نہ چھپا ہو۔ قرۃ العین حیدر، ڈاکٹر محمد حسن، پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب، مولانا عبدالماجد دریابادی، پروفیسر آل احمد سرور، نورالحسن ہاشمی، اقبال مجید، ایوب احمد انصاری، نیر مسعود، احمد جمال پاشا، عابد سہیل، ابوالکلام قاسمی، امرت لال ناگر سمیت ادباء و شعراء کی طویل فہرست ہے جو اس ضمیمہ کی زینت بنے۔ قومی آواز اور حیات اللہ انصاری کی صحافت پر حسن واصف عثمانی لکھتے ہیں
”حیات اللہ انصاری اور ان کے ساتھیوں نے روزنامہ قومی آواز کے توسط سے اردو صحافت کو اپنے عصر اور اس کی ترقی یافتہ صحافت سے ہم آہنگ کرنے اور ہم پلہ بنانے کی ایک ایسی کوشش کی تھی جو حوصلہ، امنگ اور ذہانت تینوں کی طلب گار تھی۔ حیات اللہ انصاری کی سربراہی میں قومی آواز کے بانی صحافیوں نے اخبار کی تزئین، ترجمے میں عام فہمی، سلاستِ اردو کے مزاج پر زور دینے کے لئے کامیاب تجربے کئے۔ خبروں کے گڑھنے یا خبروں کی جگہ ذاتی خیالات کو خبر کی طرح پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی تھی۔ قومی آواز نے ہفتہ وار میگزین کے ذریعہ شعر و ادب اور تنقید کو بھی اخباریت کا ایک جزو بنایا۔ حیات اللہ انصاری نے اپنے بے تکلف انداز میں جو اداریے لکھے ان میں زبان کا لطف اور ہلکے پھلکے طنز کے پہلو بہ پہلو ایک مجموعی فکر کی عکاسی ہوتی تھی۔“
(مضمون: لکھنؤ کے چند اخبارات، اودھ آئینہ ایام، محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ، اترپردیش)
:معروف صحافی ادریس دہلوی رقمطراز ہیں
”قومی آواز کے پہلے شمارہ سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کے پیچھے گہری فکر اور سنجیدگی ہے۔ اداریہ اپنی پیشانی پر برمحل شعر کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ اداریہ کے علاوہ دنیا کا حال، مراسلات، گلوریاں اس کے ممتاز کالم تھے۔ روز اول سے اس کا مزاحیہ کالم بے حد مقبول رہا جسے حیات اللہ انصاری لکھتے تھے۔ …… وہ کانگریس کے ہم خیال تھے لیکن جس مسئلہ پر پارٹی کے اصول و عمل میں کوئی بات ناقابل قبول نظر آتی، تنقید کے تیر و نشتر چلانے سے انھوں نے کبھی گریز نہیں کیا، خصوصاً اردو اور فسادات کے سلسلہ میں وہ اپنی پارٹی پر تنقید کرنے سے کبھی پہلو تہی نہیں کرتے تھے۔“
(مضمون: حیات اللہ انصاری، اکادمی دوماہی، اترپردیش اردو اکادمی، 2001ء)
:قومی آواز کے سابق ایڈیٹر عثمان غنی کے بقول
”حیات اللہ انصاری نے قومی آواز کا خاکہ انگریزی روزناموں کے طرز پر مقرر کیا۔ روزنامہ قومی آواز ابتداء میں چار صفحہ کا نکلا، بعد میں 6 اور پھر 8 صفحہ کا ہوا۔ حیات اللہ انصاری نے قومی آواز کے ذریعہ شہ سرخی کا لب لباب ایک پیراگراف میں لکھنے کی روایت ڈالی۔ اس کے بعد خبر کی تفصیل بیان کی جاتی تھی۔ قومی آواز کے ایک صفحہ پر آٹھ کالم ہوتے تھے۔ آٹھ کالم کے اخبار میں کتنی خبریں آٹھ کالم، چھ کالم، پانچ کالم، چار کالم، تین کالم، دو کالم اور ایک کالم کی رہیں گی، ان خبروں کی سرخیوں میں کتنے الفاظ ہوں گے، ان کا تعین حیات اللہ انصاری نے کیا اور تصاویر و کارٹون کے ذریعہ اخبار کو مزید دیدہ زیب و دلچسپ بنانے میں حیات اللہ انصاری نے کلیدی رول ادا کیا۔“
(مونوگراف حیات اللہ انصاری، از نافع قدوائی، طابع ساہتیہ اکادمی، ص:54)
حیات اللہ انصاری نے بطور صحافی جو نمایاں خدمات انجام دیں اور اس میدان میں جو شہرت و ناموری حاصل کی اس کی بلندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان پر جب بھی کوئی تقریب ہوتی ہییا  ان کی یاد میں کوئی محفل سجائی جاتی ہے تو لوگ ان کی صحافت پر ہی اظہار خیال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کی عظیم الشان ادبی خدمات کا تذکرہ ضمناً ہی ہوتا ہے۔ حیات اللہ انصاری قومی آواز سے جون 1971ء میں سبکدوش ہوئے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک  ہفت روزہ  ’سب ساتھ‘ اور کچھ عرصہ  ہفت روزہ ’سچ رنگ‘ نکالا۔ انھوں نے کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے لیکن اس میدان میں وہ دو ایک مضامین سے آگے نہیں بڑھے۔ ان کا پہلا طویل تنقیدی مضمون ن۔ م۔ راشد کے پہلے مجموعہئ کلام ’ماورا‘ پر ہے۔ ایک تنقیدی مضمون ’جدیدیت کی سیر‘ پر ہے جو 1987ء میں لکھا گیا۔ دراصل حیات اللہ انصاری کا ذہن تخلیقی تھا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تنقید کی طرف زیادہ توجہ نہ دی۔
حیات اللہ انصاری اردو کے ادیب و صحافی تھے لیکن عام ادباء و صحافیوں سے کہیں بلند تھے۔ انھوں نے اردو سے صرف فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اردو کو بہت کچھ دیا اور ہمیشہ دینے کے لئے کوشاں رہے۔ انھیں اردو سے بے انتہا محبت تھی جس کا ثبوت اردو کے لئے وقف ان کی پوری زندگی ہے۔ وہ مسلمانوں کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے 1934ء میں لکھنؤ میں ’تعلیم گھر‘ قائم کیا جہاں انھوں نے تعلیم بالغاں کی شروعات کی۔ غیراردو داں طبقہ کو اردو شناس بنانے کے لئے اپنے اشاعتی ادارہ ’کتاب داں‘ سے اردو قاعدہ ’لالہ تالہ‘ اور ’دس دن میں اردو‘ کی اشاعت کی جو آج بھی کارآمد ہے۔ مذکورہ ادارہ کے تحت انھوں نے ’اردو ٹیچنگ سرٹی فکیٹ‘ کے نام سے تربیتی بھی شروع کیا جو آج ان کے بیٹے سدرت اللہ انصاری اور بہو بیگم شنہاز سدرت چلا رہے ہیں۔ اردو کی ترقی و فروغ کے لئے ایک تنظیم ’اترپردیش انجمن ترقی اردو‘ قائم کی اور اردو کو ریاست اترپردیش میں دوسری سرکاری زبان بنانے کے لئے اس تنظیم کے بینر تلے 22 لاکھ محبان اردو کے دستخط پر مشتمل محضرنامہ صدر جمہوریہ ہند کو پیش کیا۔ گویا اردو حیات اللہ انصاری کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ حیات اللہ انصاری نے عمر کے آخری دور میں اپنی آپ بیتی لکھنی شروع کی تھی لیکن چند صفحات ہی لکھ سکے تھے۔
جیسا کہ مذکورہ ہوا حیات اللہ انصاری کی شخصیت کی مختلف جہات ہیں۔ وہ صحافی تھے، افسانہ نویس و ناول نگار تھے، ماہر تعلیم تھے، اردو کی ترقی کے لئے عملی کام کرتے تھے، چند تنقیدی مضامین بھی لکھے، سیاست داں بھی تھے، کئی مرتبہ ایم ایل سی و ممبر راجیہ سبھا نامزد کئے گئے۔ ان کی ادبی زندگی کا عروج اس دور میں ہوا جب ترقی پسندوں کا بول بالا ’شہ زوری‘ کی حد تک تھا۔ ترقی پسند ادبا و شعراء نے ایسے ادیبوں و شاعروں کو ہمیشہ نظرانداز کرنے کی کوشش کی جن کی تخلیقات ان کے نظریات کی تشہیر نہ کرتی ہوں۔ جس دور میں حیات اللہ انصاری نے ن۔ م۔ راشد کے مجموعہئ کلام پر تنقیدی مضمون لکھا تب تک حیات اللہ انصاری کا پہلا افسانوی مجموعہ ’انوکھی مصیبت‘ منظر عام پر آچکا تھا جس کا صرف ایک افسانہ ’بھرے بازار میں‘ ترقی پسند ادباء کو پسند آیا، اس مجموعہ کے بقیہ افسانوں کو ترقی پسندوں نے لائق اعتنا نہیں سمجھا جبکہ ن۔ م۔ راشد کے مجموعہئ کلام کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس مجموعہ پر حیات اللہ انصاری کے ذریعہ کی گئی تنقید پر بھی توجہ نہیں دی گئی لیکن جب یہی تنقیدی مضمون ”نگار‘ ’میں شائع ہوا تو اس نے ناقدین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ حیات اللہ انصاری خود بھی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے لیکن انھوں اپنے قلم کو ترقی پسند تحریک کے نظریات کی تشہیر کا ذریعہ نہیں بننے دیا۔ انھوں نے وہ لکھا جس کا انھوں نے بچشم خود مشاہدہ کیا چاہے وہ کسی کے نظریہ پر کھرا اترے یا اس کی نفی کرے۔ یہ حیات اللہ انصاری کا زور قلم ہی تھا کہ ادبی گروہ بندی کے باوجود انھوں نے نہ صرف اپنے آپ کو ثابت کیا بلکہ امتیازی مقام حاصل کیا اور جس میدان میں بھی قدم رکھا وہاں اپنی انفرادیت قائم کی۔ 
(مطبوعہ:- یوپی اردو اکادمی کا رسالہ ’خبرنامہ‘، مارچ 2019ء)

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Afsana kya hai? افسانہ کیا ہے؟