فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہندوستان کی شناخت Hindustan Mein Firqawarana hum aahangi

فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہندوستان کی شناخت 
 ٭احرارالہدیٰ شمس
 ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ ہمارے ملک کا آئین اپنے شہریوں کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ ہندوستان میں ہر مذہب کے ساتھ یکساں سلوک اور احترام کیا جاتا ہے اور یہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں بہت آگے ہے۔آزادی کے بعد مذہبی تنگ نظری، علاقائی عصبیت اور فرقہ وارانہ جذبات نے ملک کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ بظاہر فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات جو کبھی کبھار رونما ہوتے ہیں،دو اہم مذہبی برادریوں کے درمیان عدم اعتماد کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ملک میں جب جب انتخابات کی تاریخ قریب آتی ہے تب تب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تار تار کرنے کا تانابانا بنا جاتا ہے۔ خاص طور سے یوپی اوربہار میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو چکنا چور کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب جب فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں تو ہندو مسلمانوں میں خلیج پیدا ہوجاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو چکناچور کی جو کوشش کی گئی اور ایک دوسرے کے درمیان جو خلیج پیدا کی گئی، اس کو پاٹنے کے لیے ہمیں مظفرنگر کا وہ گاؤں جاننا ہوگا جو فسادکی جڑ بنا۔ گنگا اور جمنا ندی کے بیچ قیام پذیر ہندوؤں اور مسلمانوں کی ملی جلی آبادی والے مظفرنگر ضلع کی شناخت گنے کی کھیتی سے ہے، یہاں کی لہلاتی کھیتی کو دیکھیں گے تو ہر طرف گنے کی کھیتی ہی نظر آئے گی، جس گاؤں ’کوال‘ میں 2013میں فساد برپا ہوا تھا، وہاں ہندومسلم پھر سے ایک ساتھ مل کر رہ رہے ہیں۔ فسادات کے الزام میں جیل جاچکے دیویندر سنگھ کے کولہو پر محمد مسلم مطمئن ہوکر گڑ بنانے کا کام کررہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جو نفرت پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہوگئی، اب کسی طرح کی کوئی دقت نہیں ہے۔ مظفرنگر فساد کے دوران رام ویر کشیپ نام کے ایک ضعیف نے 120 سالہ قدیم مسجد کو شرپسندوں کے ذریعہ منہدم کرنے سے بچایا تھا اور گاؤں کے ہندوؤں نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اب تو اس مسجد کی دیکھ ریکھ رام ویر ہی کے ذمہ ہے۔ ملک میں فسادات کیوں ہوتے ہیں اس پر سابق وزیرداخلہ برائے مملکت ہنس راج اہیر کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں خاص طور سے یوپی میں جو فسادات ہوئے ہیں اس کی وجہ مذہبی، زمین جائیداد اور سوشل میڈیا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے رواداری بھی ضروری ہے۔ ہندوستان میں رواداری کی کمی کے سبب آپس میں تصادم کی نوبت پیدا ہورہی ہے۔ اگر ہم روادار ہیں تو ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کریں گے۔ آج بھی ہندوستان میں رواداری کی اہمیت ہے۔ اس ملک میں رواداری کو سمجھنا ہے تو مدرسہ کے طالب علم اور بڑے مندر کے پجاری کے اس سلوک سے سمجھئے: ”راستہ میں ایک بوڑھی خاتون کو کسی گاڑی سے ٹکر لگتی ہے اور وہ زمین پر گرپڑتی ہے، جسے ایک راہ گیر مدرسہ کا طالب علم اٹھاتا ہے، پانی پلاتا ہے، اس کی خیریت دریافت کرتاہے تو دوسری طرف رکشہ سے گزرنے والے پنڈت جی طالب علم کے نیک کام سے اتنا متاثر ہوتے ہیں کہ اس کو اپنے ساتھ رکشہ پر بٹھاکر اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں اور خوب دعاؤں سے نوازتے ہیں۔“ یہ ہے ہندوستان۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندوستان میں امن وسلامتی کو بڑھاوا دینے میں صوفی ازم کی بھی اہمیت رہی ہے۔ دوسری صدی کے آغاز سے ہی تصوف کو ہندوستان کے مذہبی منظرنامہ میں اہمیت حاصل ہے۔ مزار پر مقیم صوفیوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بڑھانے میں اہم رول ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی مزارات پر کثرت سے جاتے ہیں اور اپنی مراد پوری کرنے کی دعا مانگتے ہیں۔ اترپردیش میں قصبہ دیویٰ، لکھنؤ میں شاہ مینا شاہ، درگاہ دادا میاں، درگاہ کھمن پیربابا چارباغ، درگاہ سید سالار مسعود غازی جیسے مزارات میں کیاہندو کیا مسلم سب کثرت سے جاتے ہیں اور اپنے اپنے عقیدہ کے حساب سے منت وسماجت کرتے ہیں۔درگاہ کھمن پیربابا کے عرس پر کئی روز تک قوالی کا پروگرام ہوتا ہے جس کے انتظام وانصرام میں مسلم سے زیادہ ہندوعقیدت مند بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح محرم کے مہینہ میں جب تعزیہ اٹھتا ہے تو ہندو عقیدت مند اس میں شرکت کرتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں تعزیہ رکھواتے ہیں۔ لکھنؤ میں ایک ہندو عقیدت مند ہری چند دھانک جب تک باحیات رہے وہ اپنے گھروں میں تعزیہ رکھتے تھے۔ ہندوستان میں ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک ہونے کے لیے زیادہ تر ہندو مسلم سماجی وفلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ست سنگ، پیام انسانیت فورم، پیام امن کے تحت لوگ ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں۔ اسپتالوں میں بلاتفریق مذہب وملت خون عطیہ کیمپ لگایا جاتا ہے، مریضوں کی تیمارداری کے ساتھ ساتھ دوائیں اور ضروری اشیاء تقسیم کی جاتی ہیں۔ جاڑے کے موسم میں گرم کپڑے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ قدرتی آفات میں ہرکوئی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور خوردنی اشیاء تقسیم کی جاتی ہے، جس میں یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ کون مسلم ہے کون ہندو، سبھی کو ایک ترازو پر تولا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوؤں کے تہواروں میں بھی گنگاجمنی تہذیب دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ دیوالی میں پٹاخہ، رنگوں کا تہوارہولی میں رنگولی اور دسہرہ میں راون کا مجسمہ بنانے میں مسلم کاریگروں کے ذریعہ بہترین نقاشی کی جاتی ہے۔ اترپردیش حکومت کی جانب سے دیوالی کے موقع پر جب دیپ اتسو منانے کا اعلان ہوا تو کاشی کی مسلم خواتین کی جانب سے 108 دیے اجودھیا کی ساکیت بھوشن رام پیٹھ میں روشنی بکھیرنے کے لیے خاص طور پر بھیجے گئے،جس کو گائے کے گوبر اور مٹی سے تیار کیے گئے تھے۔ مسلم مہیلا فاؤنڈیشن اور وشال بھارت سنستھان کی خواتین کی مشترکہ کوشش سے فرقہ وارنہ ہم آہنگی کو مزید فروغ دینے کا کام کیا گیا ہے۔ مسلم مہیلا فاؤنڈیشن کی قومی صدر ناظرین انصاری اس دیے کو روشنی بکھیرنے تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہتی ہیں، بلکہ اس کے ذریعہ نفرت کی آگ پر پانی ڈالنا چاہتی ہیں۔ ان کا ترک ہے کہ بھگوان شری رام تو سب کے ہیں آج پوری دنیا کو شری رام سنسکرت کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ وشال بھارت سنستھان کی قومی جنرل سکریٹری ارچنا بھارت ونشی ملک میں تشدد وعدم رواداری کے فقدان پر تشویش ظاہر کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ملک میں چاہے جتنی نفرت پھیلالیں ہم تیج تہوار مل کر منائیں گے، بھگوان شری رام سب کے ہیں، جتنا ہندوستان کے ہیں اتنا ہی مسلم اور عیسائی ممالک کے۔ مسلم خواتین کی جانب سے 108 دیے روشن کرنے کی پہل کو رام پیٹھ کے منتظم ڈاکٹر راجیو شری گرو جی نے سلام کیا ہے، یقینا اس کو ہم ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کی ایک بہترین مثال قرار دے سکتے ہیں۔دیوالی تہوار کے دو تین روز بعد باندہ ضلع کی تحصیل ہتھوڑا میں واقع ایک بڑے مدرسہ کے گراؤنڈ میں لٹھ وکشتی کے مقابلہ کا انعقاد دہائیوں سے ہوتے آرہے ہیں، جہاں مدرسہ کے منتظمین فاتح ٹیم وکھلاڑیوں کو شیلڈ ونقد انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ اس انعقاد کا مقصد صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور عدم تشدد کو فروغ دینا ہے۔ ہم ہندوستانیوں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے بلا تفریق مذہب و ملت آگے آنا ہوگااور امن کے پیغام کو عام کرنا ہوگا۔ بہار میں بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بڑھاوا دینے کی کوشش ہر دور میں ہوئی ہے۔ یہاں بھی صوفیوں، سنتوں، علماء کے ذریعہ ماحول کو پرامن بنانے میں اہم رول رہا ہے۔ خانقاہ منعیمیہ، پھلواری شریف، خانقاہ رحمانیہ، خانقاہ مجیبیہ میں ہر مذہب کے لوگ حاضری دیتے ہیں۔نالندہ کے ماڑی گاؤں میں صدیوں پرانی مسجد ومزار واقع ہے، جہاں کسی زمانہ میں مسلم ہوا کرتے تھے، آج ایک بھی مسلم نہیں ہے، لیکن وہاں کے ہندو افراد مسجد کی صاف صفائی سے لے کر وقت مقررہ پر اذان دیتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ گاؤں میں کوئی بھی بلا ومصیبت آتی ہے تو ہم اس مسجد ومزار کا رخ کرتے ہیں اور آسانی سے حل ہوجاتا ہے۔ کچھ برسوں سے بہار میں بھی شرپسند عناصر کے ذریعہ ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش ضرور ہوئی ہے۔لیکن ہم ہندوستانیوں (ہندو مسلم) نے مل کر شرپسند عناصر کے ناپاک ارادوں کو تار تار کیا ہے، اور اتحاد کا پیغام ہمیشہ سے دیاہے۔ آج ہر طرف ماحول پرامن ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور تہواروں میں ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں اور خوشیاں بانٹتے ہیں۔ ارریہ ضلع میں ماں کھرگیشوری کالی مندر کے سادھک ’نانو دا‘ گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں، پوری زندگی ارریہ شہر میں گزار دی، اپنے دور میں بہترین فٹبالر رہ چکے ہیں۔ ان کے دوستوں میں کئی مسلم دوست بھی ہیں، جن کے گھر آنا جانا رہا ہے۔ وہ سب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ علاقہ کے لیے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پشتینی زمین ایک طرف مندر کے لیے دی تو دوسری طرف گاؤں والوں کو مسجد بنانے کے لیے دی۔ تبلیغی جماعت کاجب ارریہ میں اجتماع ہوتا ہے تو وہ اجتماع گاہ پہنچ کر اپنی پوری حمایت دیتے ہیں اور کسی طرح کی کوئی دقت نہ ہو اس کے لیے اپنے کو وقف کردیتے ہیں۔ بہار کے بیشتر اضلاع نشیبی علاقہ میں واقع ہے،جہاں ہر برس سیلاب سے ہزاروں لاکھوں ہندو مسلم بے گھر ہوجاتے ہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ہر کوئی ایک دوسرے کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتاہے۔ 2017 میں جب سوپول، مدھوبنی، ارریہ، پورنیہ، کٹیہار میں زبردست سیلاب آیا،اس میں سبھی طبقہ نے ایک دوسرے کی مدد کی۔ امارات شرعیہ، پیام انسانیت فورم، جمعیۃ علماء، جماعت اسلامی ہند، آر ایس ایس، وشوہندو پریشد جیسی تنظیموں کی جانب سے خوردنی اشیاء، گرم کپڑے اور ضروری اشیاء بلاتفریق مذہب وملت تقسیم کی گئیں۔ یہ سچ ہے کہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے امن وامان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنیادی شرط ہے۔ امن اور ہم آہنگی معاشرے میں ایک پرامن اور مستحکم نظام قائم کرتی ہے اور انسان کی بقا اور ترقی کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔ ہم ہندوستانیوں کو متحد ہوکر پوری دنیا میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے اور ہندوستان کی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینی چاہئے۔ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور ثقافتی طور پر متنوع ملک میں امن وسلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایک ضروری پہلو اور لائق تحسین قدم ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Afsana kya hai? افسانہ کیا ہے؟

hayatullah ansari حیات اللہ انصاری