باغ سنبھلی کی شعری کائنات bagh sambhli ki sheri kainaat
نام کتاب: باغ سنبھلی کی شعری کائنات
نام مصنف: محمد اویس سنبھلی
تبصرہ نگار: محمد راشد خان ندوی
(مطبوعہ روزنامہ راشٹریہ سہارا، لکھنؤ. 30-6-19)
عروج و زوال ایک فطری عمل ہے جو فطرت کے قوانین کے مطابق ہوتا رہا ہے۔ دہلی سے تقریباً سواسو کلومیٹر کی مسافت پر واقع مشہور قصبہ سنبھل کے بھی گرنے و سنبھلنے کے ایک طویل داستان ہے۔ یہ قصبہ سیاسی، علمی و ادبی اعتبار سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ ہندوستان کے مشہور حکمراں پرتھوی راج نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تھا۔ عہد مغلیہ میں یہ قصبہ شہزادہ ہمایوں کی جاگیر قرار پایا۔ عہد اکبری میں اسے ’سنبھل سرکار‘ کا درجہ حاصل ہوا۔ مغلوں سے پہلے سکندر لودھی نے بھی اسے اپنا پایہئ تخت بنایا تھا۔ اردو شعر و ادب میں بھی سنبھل کو امیتاز حاصل رہا ہے۔ یہاں ایسی علمی و ادبی شخصیات وجود میں آتی رہیں جن کے کارنامے کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے۔ ہری ہر پرشاد شاد مصنف بدائع الفنون، احمد علی حسرتؔ، امیر حسن دوست سنبھلی مولف ’تذکرہ حسینی‘ غلام احمد شوق فریدی، حکیم کبیر علی کبیرؔ، حکیم صغیر علی مروت وغیرہ کے نام سنبھل کے اولین عہد کے شعراء میں شامل ہیں۔ 19 صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں جن شعراء کے نام نمایاں ہیں ان کے ایک نام باغؔ سنبھلی کا ہے۔ محمد فضل رب باغؔ سنبھلی داغؔ دہلوی کے نہ صرف ممتاز شاگردوں میں سے ایک تھے بلکہ ان کے جن تین شاگروں کو داغؔ کی جانشینی کا شرَف حاصل ہوا ان میں ایک نام باغؔ کا بھی ہے۔ محمد فضل رب جو پہلے وارفتہؔ اور پھر ہمدمؔ کے نام شاعری کرتے تھے انھوں نے داغؔ دہلی سے متاثر ہوکر اپنا تخلص باغؔ رکھ لیا اور اسی تخلص سے انھیں شہرت بھی ملی۔ باغؔ 1871ء میں پیدا ہوئے اور 1935 میں انتقال ہوا۔ ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کے بقول:
”باغؔ کا پورا نام محمد فضل الرب عباسی تھا لیکن منشی فضل رب کے نام سے معروف اور باغؔ سنھلی کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ باغؔ نے زمیندار گھرانے میں آنکھ کھولی، عیش و عشرت کے ماحول میں پروان چڑھے اور رئیسانہ شان و شوکت کے ساتھ زندگی گزاری۔ کوئی اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ والدین کے بہت لاڈلے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، پھر مدرسے میں داخل ہوئے لیکن تعلیمی سلسلہ زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ داغ دہلی جیسے استاد کامل کے فیضِ صحبت نے ان کے فن کو جلا بخشی“۔ (بحوالہ: ادبی تحریر)
زیر نظر کتاب ”باغؔ سنبھلی کی شعری کائنات“ داغؔ دہلوی کے شاگرد و جانشین باغؔ سنبھلی کے کلام کا اولین شائع شدہ مجموعہ ہے جسے نوجوان قلمکار محمد اویس سنبھلی نے بڑی عرق ریزی سے ترتیب دیا ہے۔
باغؔ سنبھلی جیسے قادرالکلام شاعر جو پردہ گمنامی میں تھے اور جن کی شہرت وقت کے گرد و غبار میں دھندلی ہوگئی تھی، ”باغؔ سنبھلی کی شعری کائنات“ کے ذریعہ ان کی بازیافت اویس سنبھلی کا ایک اہم کارنامہ ہے جس کا استقبال کیا جانا چاہئے۔ کتاب کے شروع میں ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی اور ڈاکٹر عمیر منظر کے مقدمے ہیں۔ ڈاکٹر عثمانی نے ’سنبھل کا باغؔ‘ عنوان سے باغؔ سنبھلی کے کلام کا بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے:
”باغؔ کی نظر بہت وسیع اور فکر کا دائرہ بہت کشادہ تھا، اس میں خالص ادب و شاعری بھی ہے، نظر کی پاکیزگی اور دل کی نفاست بھی ہے، شعری سنجیدگی کی توانائی بھی ہے، جذبہئ صادق اور کہیں کہیں تصوف کی ہلکی سی جھلک بھی ہے“۔
ڈاکٹر عمیر منظر نے باغؔ کے اشعار پر فنی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”ان (باغؔ) کے اشعار کے مضامین میں کوئی ندرت یا نیا پن نہیں ہے، یہ ہماری شاعری کے عام مضامین ہیں مگر ان کو جس طرح سے بیان کیا گیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ محاوروں کا برجستہ استعمال اور الفاظ کی تکرار سے اشعار میں جو کیفیت پیدا ہوگئی ہے وہی داغؔ اور ان کے شاگرددوں کا طرہئ امتیاز ہے۔“
باغ سنبھلی نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی تھی۔ 251 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں باغؔ کی 112 غزلیں، 31 مخمس اور 16 حمدیہ، نعتیہ ومنقبتی کلام شامل ہیں۔ بطور نمونہ باغ کی غزلوں سے چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں:
نہ بھروسہ نہ سہارا نہ تسلی نہ امید
واہ اے باغؔ کوئی آپ کی دنیا دیکھے
دل گواہی نہیں دیتا کہ پڑھوں خط کا جواب
دم بخود ہوں نہیں معلوم کہ لکھا کیا ہے
نظریں ہی ملاتے ہو کچھ منہ سے نہیں کہتے
شمشیر ہی چلتی ہے تکبیر نہیں کہتے
تجھے جانِ جہاں کہتی ہے دنیا
عداوت ہے مجھے سارے جہاں سے
کیسی بے قابو طعیت ہوگئی
بے مروت سے محبت ہوگئی
یہ کتاب کئی اہم خصوصیات کی حامل ہے۔ باغ سنبھلی کا انتقال 1935ء میں ہوا تھا، 8 دہائیاں گزرنے کے بعد محمد اویس سنبھلی کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ انھوں نے پہلی مرتبہ ان کے بکھرے ہوئے کلام کو یکجا کیا اور اس کا بڑا حصہ اس کتاب میں شامل کیا جبکہ بچے ہوئے حصہ کو علیٰحدہ کتاب میں شائع کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ کتاب میں ابتدائیہ کے عنوان سے مرتب نے ایک طویل مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں سنبھل کی پوری ادبی تاریخ کا احاطہ کرلیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب محض باغ سنبھلی کے کلام کا مجموعہ نہیں بلکہ سنبھل کی ادبی و علمی تاریخ کا بھی مجموعہ ہے جس میں اس تاریخی قصبہ کے عہد اول سے لے کر بیسویں صدی کے معروف عالم دین و درجنوں اہم کتابوں کے مصنف مولانا محمد منظور نعمانیؒ تک کا جامع تعارف ہے۔ کتاب سیرت و صورت دونوں اعتبار سے خوبصورت ہے۔ یقین کامل ہے کہ شعر و ادب کے شائقین کو متوجہ کرے گی اور اس کی مقبولیت صاحبِ کتاب کو مزید ادبی و علمی کارنامے انجام دینے کے لئے مہمیز کرے گی۔
٭٭
(مطبوعہ روزنامہ راشٹریہ سہارا، لکھنؤ. 30-6-19)
عروج و زوال ایک فطری عمل ہے جو فطرت کے قوانین کے مطابق ہوتا رہا ہے۔ دہلی سے تقریباً سواسو کلومیٹر کی مسافت پر واقع مشہور قصبہ سنبھل کے بھی گرنے و سنبھلنے کے ایک طویل داستان ہے۔ یہ قصبہ سیاسی، علمی و ادبی اعتبار سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ ہندوستان کے مشہور حکمراں پرتھوی راج نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تھا۔ عہد مغلیہ میں یہ قصبہ شہزادہ ہمایوں کی جاگیر قرار پایا۔ عہد اکبری میں اسے ’سنبھل سرکار‘ کا درجہ حاصل ہوا۔ مغلوں سے پہلے سکندر لودھی نے بھی اسے اپنا پایہئ تخت بنایا تھا۔ اردو شعر و ادب میں بھی سنبھل کو امیتاز حاصل رہا ہے۔ یہاں ایسی علمی و ادبی شخصیات وجود میں آتی رہیں جن کے کارنامے کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے۔ ہری ہر پرشاد شاد مصنف بدائع الفنون، احمد علی حسرتؔ، امیر حسن دوست سنبھلی مولف ’تذکرہ حسینی‘ غلام احمد شوق فریدی، حکیم کبیر علی کبیرؔ، حکیم صغیر علی مروت وغیرہ کے نام سنبھل کے اولین عہد کے شعراء میں شامل ہیں۔ 19 صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں جن شعراء کے نام نمایاں ہیں ان کے ایک نام باغؔ سنبھلی کا ہے۔ محمد فضل رب باغؔ سنبھلی داغؔ دہلوی کے نہ صرف ممتاز شاگردوں میں سے ایک تھے بلکہ ان کے جن تین شاگروں کو داغؔ کی جانشینی کا شرَف حاصل ہوا ان میں ایک نام باغؔ کا بھی ہے۔ محمد فضل رب جو پہلے وارفتہؔ اور پھر ہمدمؔ کے نام شاعری کرتے تھے انھوں نے داغؔ دہلی سے متاثر ہوکر اپنا تخلص باغؔ رکھ لیا اور اسی تخلص سے انھیں شہرت بھی ملی۔ باغؔ 1871ء میں پیدا ہوئے اور 1935 میں انتقال ہوا۔ ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کے بقول:
”باغؔ کا پورا نام محمد فضل الرب عباسی تھا لیکن منشی فضل رب کے نام سے معروف اور باغؔ سنھلی کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ باغؔ نے زمیندار گھرانے میں آنکھ کھولی، عیش و عشرت کے ماحول میں پروان چڑھے اور رئیسانہ شان و شوکت کے ساتھ زندگی گزاری۔ کوئی اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ والدین کے بہت لاڈلے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، پھر مدرسے میں داخل ہوئے لیکن تعلیمی سلسلہ زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ داغ دہلی جیسے استاد کامل کے فیضِ صحبت نے ان کے فن کو جلا بخشی“۔ (بحوالہ: ادبی تحریر)
زیر نظر کتاب ”باغؔ سنبھلی کی شعری کائنات“ داغؔ دہلوی کے شاگرد و جانشین باغؔ سنبھلی کے کلام کا اولین شائع شدہ مجموعہ ہے جسے نوجوان قلمکار محمد اویس سنبھلی نے بڑی عرق ریزی سے ترتیب دیا ہے۔
باغؔ سنبھلی جیسے قادرالکلام شاعر جو پردہ گمنامی میں تھے اور جن کی شہرت وقت کے گرد و غبار میں دھندلی ہوگئی تھی، ”باغؔ سنبھلی کی شعری کائنات“ کے ذریعہ ان کی بازیافت اویس سنبھلی کا ایک اہم کارنامہ ہے جس کا استقبال کیا جانا چاہئے۔ کتاب کے شروع میں ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی اور ڈاکٹر عمیر منظر کے مقدمے ہیں۔ ڈاکٹر عثمانی نے ’سنبھل کا باغؔ‘ عنوان سے باغؔ سنبھلی کے کلام کا بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے:
”باغؔ کی نظر بہت وسیع اور فکر کا دائرہ بہت کشادہ تھا، اس میں خالص ادب و شاعری بھی ہے، نظر کی پاکیزگی اور دل کی نفاست بھی ہے، شعری سنجیدگی کی توانائی بھی ہے، جذبہئ صادق اور کہیں کہیں تصوف کی ہلکی سی جھلک بھی ہے“۔
ڈاکٹر عمیر منظر نے باغؔ کے اشعار پر فنی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”ان (باغؔ) کے اشعار کے مضامین میں کوئی ندرت یا نیا پن نہیں ہے، یہ ہماری شاعری کے عام مضامین ہیں مگر ان کو جس طرح سے بیان کیا گیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ محاوروں کا برجستہ استعمال اور الفاظ کی تکرار سے اشعار میں جو کیفیت پیدا ہوگئی ہے وہی داغؔ اور ان کے شاگرددوں کا طرہئ امتیاز ہے۔“
باغ سنبھلی نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی تھی۔ 251 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں باغؔ کی 112 غزلیں، 31 مخمس اور 16 حمدیہ، نعتیہ ومنقبتی کلام شامل ہیں۔ بطور نمونہ باغ کی غزلوں سے چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں:
نہ بھروسہ نہ سہارا نہ تسلی نہ امید
واہ اے باغؔ کوئی آپ کی دنیا دیکھے
دل گواہی نہیں دیتا کہ پڑھوں خط کا جواب
دم بخود ہوں نہیں معلوم کہ لکھا کیا ہے
نظریں ہی ملاتے ہو کچھ منہ سے نہیں کہتے
شمشیر ہی چلتی ہے تکبیر نہیں کہتے
تجھے جانِ جہاں کہتی ہے دنیا
عداوت ہے مجھے سارے جہاں سے
کیسی بے قابو طعیت ہوگئی
بے مروت سے محبت ہوگئی
یہ کتاب کئی اہم خصوصیات کی حامل ہے۔ باغ سنبھلی کا انتقال 1935ء میں ہوا تھا، 8 دہائیاں گزرنے کے بعد محمد اویس سنبھلی کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ انھوں نے پہلی مرتبہ ان کے بکھرے ہوئے کلام کو یکجا کیا اور اس کا بڑا حصہ اس کتاب میں شامل کیا جبکہ بچے ہوئے حصہ کو علیٰحدہ کتاب میں شائع کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ کتاب میں ابتدائیہ کے عنوان سے مرتب نے ایک طویل مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں سنبھل کی پوری ادبی تاریخ کا احاطہ کرلیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب محض باغ سنبھلی کے کلام کا مجموعہ نہیں بلکہ سنبھل کی ادبی و علمی تاریخ کا بھی مجموعہ ہے جس میں اس تاریخی قصبہ کے عہد اول سے لے کر بیسویں صدی کے معروف عالم دین و درجنوں اہم کتابوں کے مصنف مولانا محمد منظور نعمانیؒ تک کا جامع تعارف ہے۔ کتاب سیرت و صورت دونوں اعتبار سے خوبصورت ہے۔ یقین کامل ہے کہ شعر و ادب کے شائقین کو متوجہ کرے گی اور اس کی مقبولیت صاحبِ کتاب کو مزید ادبی و علمی کارنامے انجام دینے کے لئے مہمیز کرے گی۔
٭٭
Comments
Post a Comment