tabsera

(مطبوعہ روزنامہ راشٹریہ سہارا، لکھنؤ)
زیر تبصرہ کتاب ’باتیں سخن کی‘ نوجوان ادیب و شاعر ڈاکٹر عمیر منظر اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس کی تازہ تصنیف ہے۔ اس سے قبل ان کی ”ڈاکٹر راجندر منچدابانی، شبلی، مکاتیب شبلی اور ندوۃ العلماء، طاہرہ اقبال کے منتخب افسانے، اردو زبان کی تدریس اور اس کا طریقہ کار، مولانا ابواللیث ندوی کے قرآنی مقالات“ سمیت متعدد کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ ’باتیں سخن کی‘ ڈاکٹر عمیر منظر کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے معارف، سب رس، نئی کتاب، کتاب نما، قومی زبان، آجکل، تمثیل، اردو جرنل، پیش رفت وغیرہ جیسے موقر ادبی جرائد کے لئے تحریر کئے۔ اگرچہ یہ سبھی مضامین شاعری سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود ان میں تنوع ہے۔ اردو ادب میں مضامین کا انتخاب ایک قدیم روایت ہے اور اس معنی میں ایک اچھی روایت ہے کہ اخبارات و جرائد میں بکھرے ہوئے مضامین ایک جگہ محفوظ ہوجاتے ہیں جن تک لوگوں کی رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ 192 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کل بیس مضامین ہیں۔ پیش لفظ میں مصنف نے وضاحت کی ہے کہ کتاب میں شامل مضامین تاریخی ترتیب سے رکھے گئے ہیں، جس میں شعراء کے سن ولادت کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے کتاب کا پہلا مضمون ’داغ اور دبستانِ داغ‘ ہے۔ یہ پہلا  ہی مضمون اپنے پڑھنے والے پر اچھا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہے۔ یہ مضمون تحقیقی نوعیت کا ہے۔ اس میں ایک طرف داغ اور استادی و شاگردی کی روایت  اور ان کے طریقہئ اصلاح پر مدلل گفتگو کی گئی ہے تو دوسری طرف شاعری میں ان کے مقام و مرتبہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف صفحہ نمبر 12 پر رقم طراز ہیں:
”یہ کہنا کہ جو اعلیٰ درجے کی شاعری سے واقف نہیں ہیں داغؔ کا کلام انھیں لوگوں میں زیادہ پسند کیا گیا درست نہیں ہے۔ نواب مرزا داغؔ، استاد ذوقؔ کے شاگرد تھے استاد کو اپنے شاگرد پر ناز تھا۔ داغ کی زبان دانی اور شعری محاسن پر استادانہ دسترس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ مرزا غالبؔ داغؔ کے اچھے اشعار پر دل کھول کر داد دیتے۔ ایک صحبت میں نواب مرزا خاں، داغ کے اس شعر کو بار بار پڑھتے تھے اور اس پر وجد کرتے تھے:
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں 
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر آتا ہے پروانہ“
داغ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ مصنف نے داغؔ کے طریقہئ اصلاح کی متعدد لچسپ مثال پیش کی ہیں۔ مضمون ”حالی کی نظموں میں تہذیبی جلوہ گری“ میں مصنف نے بتایا ہے کہ حالی کی شاعری کا ایک حصہ کلاسیکی شعراء کی یاد دلاتا ہے تو دوسری طرف انھوں نے نئی شاعری کی بنیاد بھی رکھی۔ حالی افادی ادب کے علمبردار تھے لیکن ان کی تحریں ادبی حسن اور لطف سے خالی نہیں ہوتی تھیں۔ حالی کا نام آتے ہی ایک ایسے ادیب و شاعر کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جو اپنے عہد کے سماجی حقائق و مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے اور ان کے بیان کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ علامہ شبلی کی شہرت ان کی نثری تصانیف کی وجہ سے ہے مگر یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ علامہ نہ صرف اردو و فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے بلکہ دونوں شاعری میں ان کا دیوان بھی موجود ہے۔ مضمون ”شبلی کی شاعری“ میں ڈاکٹر عمیر منظر نے علامہ شبلی نعمانی کی شاعری کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ ایک دوسرے مضمون نے مصنف نے علامہ شبلی کی مثنوی ’صبح امید‘ پر تنقیدی نظر ڈالی ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی معروف اسلامی اسکالر اور تاریخ و سیرت پر متعدد کتابوں کے مصنف کے طور پر جانتے جاتے ہیں۔ اردو شعر و ادب کا بھی ستھرا اور بلند ذوق رکھتے تھے۔ ’شعرالہند‘ اور ’اقبال کامل‘ جیسی کتابیں ان کی ادبی یادگار ہیں۔ یہ تمام شہرتیں اپنی جگہ لیکن بطور شاعر مولانا عبدالسلام ندوی کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر منظر نے ’مولانا عبدالسلام ندوی کی شاعری‘ کے عنوان سے مولانا کے شعری کمالات کا احاطہ کیا ہے۔ میراجی اردو ادب کا وہ نام ہے جس نے جدید نظم میں انفرادیت قائم کی۔ مصنف نے مضمون ”میرا جی کی شاعری: ارضی اور تہذیبی حوالے سے“ میں میراجی کی نظم نگاری میں حب الوطنی اور ہندوستانی تہذیبی روایات کی نشاندہی کی ہے۔ کتاب کے دیگر مضامیں میں باغ سنبھلی، صدف لکھنوی، تاباں، کیف بھوپالی، زیب غوری، اختر مسلمی، بلراج کومل، ظفر اقبال، احمد مشتاق، شہریار، زبیر رضوی، شجاع خاور اور تشنہ عالمی کی شاعری پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں ایک مضمون ’اردو کی غزلیہ شاعری پر فارسی غزل کے اثرات‘ کے عنوان سے ہے۔ اس مضمون میں اردو پر فارسی کے اثرات اور فارسی پر عربی زبان کے اثرات کا مختصر مگر جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کتاب میں شامل ہر مضمون اپنے قاری کو کچھ نہ کچھ دیتا ہے، اور یہ چیز کسی بھی مصنف کے لئے کسی انعام سے کم نہیں۔
تبصرہ نگار: محمد راشد خان ندوی

Comments

Popular posts from this blog

Afsana kya hai? افسانہ کیا ہے؟

hayatullah ansari حیات اللہ انصاری