tabsera - nazre sharib شارب ردولوی تبصرہ - نذر شارب

نام کتاب: نذرِ شارب
مرتب : محمداویس سنبھلی، رابطہ:7905636448
طابع : نعمانی پرنٹنگ پریس، لکھنؤ صفحات : 271   قیمت 299 روپئے
ملنے کا پتہ : دانش محل، امین آباد،لکھنؤ ناشر : احساس ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئرٹرسٹ
تبصرہ نگار : محمد راشد خان ندوی
زیر نظر کتاب ’نذر شارب‘ پروفیسر شارب ردولوی کی شخصیت اور ادبی کارناموں سے متعلق مضامین کا مجموعہ ہے جسے نوجوان قلمکار محمد اویس سنبھلی نے مرتب کیا ہے۔ حرف آغاز کے عنوان سے مرتب نے کتاب کی ترتیب کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ دہلی اردو اکادمی نے اپنا سب سے بڑا ’کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ‘ (2018) پروفیسر شارب ردولوی کی خدمت میں پیش کیا۔ ایوارڈ ملنے کی اطلاع ملنے پر مرتب کے ذہن میں خیال آیا کہ اس خوشی کے موقع پر اہل لکھنؤ پر بھی کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے چنانچہ ’نذرشارب‘ کی شکل میں انھیں خراج تحسین پیش کرنے کی تیاری شروع کی، اخبارات و سوشل میڈیا پر اس کا اعلان کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اتنے مضامین آگئے کہ انتخاب کی ضرورت پڑ گئی۔ کسے شامل ِ اشاعت کیا جائے اور کس کو روک لیا جائے یہ نوبت آگئی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کم وقت میں ایک معیاری کتاب مرتب کرکے جناب اویس سنبھلی نے نوجوان قلمکاروں کے لئے ایک مثال قائم کی ہے۔
271 صفحات پر مشتمل ’نذر شارب‘ میں مجموعی طور پر 31 مضامین ہیں۔ ابتداء میں اردو اکادمی دہلی کے چیئرمین پروفیسر شہپر رسول اور یوپی اردو اکادمی کے سکریٹری ایس رضوان کے پیغامات ہیں۔ حرف آغاز کے عنوان سے مرتب کا 5 صفحہ کا پرمغز مقدمہ ہے۔ اس کے بعد مضامین کو تین ابواب شخصیت، مطالعہئ شارب اور طرزِ شارب میں منقسم کرتے ہوئے شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ مضامین کے انتخاب اور ان کی ترتیب کو ’حسن ِ ترتیب‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ تینوں ابواب کے عنوان سے مضامین کی نوعیت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں۔ مضمون نگاروں میں وہ لوگ بھی ہیں جو خود ادب و صحافت کا درخشندہ ستارہ ہونے کے ساتھ ساتھ شارب صاحب کو بہت قریب سے جانتے ہیں، انھوں نے اپنی یادوں کے حوالے سے ان کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے، وہ ادباء و قلمکار بھی ہیں جنھوں شارب صاحب کی تحریروں کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے اور وہ اسکالرس بھی ہیں جنھیں ابھی شاہراہ ادب کی بہت سی منزلیں طے کرنی ہیں۔ آخری باب ’طرز شارب‘ میں پروفیسر شارب ردولوی کے چار مضامین شامل ِ اشاعت ہیں جو یقنیاً اس کتاب کا انتہائی قیمتی جزو ہیں۔کتاب میں قاری کو کہیں شارب صاحب کی تخلیقات اور ان کے فن پر تجزیاتی تحریریں پڑھنے کو ملیں گی، کہیں یادوں کی کسک محسوس ہوگی تو کہیں دوستوں کے بے تکلف جملے اسے مسکرانے پر بھی مجبور کردیں گے۔
حفیظ نعمانی صاحب کے مضمون کے دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیں: ”بھابھی شمیم نے لمبی بیماری گزاری اور جتنی تکلیف خود برداشت کی اتنا ہی شارب کو اندر اندر رُلایا۔ اللہ مغفرت کرے وہ بہت بہادر تھیں لیکن جب نشتر چلتا ہے تو جس پر چلتا ہے وہی اس کی تکلیف جانتا ہے …… شارب کا ایک درد میں ڈوبا ہوا مضمون چھپا تھا، میں نے اسے بار بار پڑھا، پورے مضمون کے ہر لفظ سے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ آنسوؤں سے لکھا ہے۔ شارب نے لکھا کہ 14 اکتوبر 1965ء کو شادی کے بعد وہ دہلی چلے گئے۔ شاید یہ بات شارب کو اب یاد نہ ہو کہ 14 اکتوبر 1965 کو جیل میں گئے ہوئے حفیظ کو ڈھائی مہینے ہوگئے تھے اور روزنامہ تحریک اور ہفت روزہ ندائے ملت کے ہر دم کے ساتھی حسن واصف عثمانی مزاح نگار احمد جمال پاشا کے ساتھ نومبر 1965 کی آخری تاریخوں میں جیل میں ملنے آئے اور عثمانی کی شادی کا کارڈ دیا تو میں نے کہا کہ تھوڑا انتظار کرلیتے تو ہم بھی شریک ہوجاتے۔ اس پر جمال پاشا نے کہا کہ جب شارب نے انتظار نہیں کیا تو حسن واصف عثمانی کیوں کرتے؟“
 ”شارب نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں برسوں تنقید پڑھائی اور انھوں نے جتنا بھی لکھا اس میں 90 فیصد تنقید ہے لیکن مزاج ناقدانہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ افسانہ نگار شمیم نکہت کے ساتھ زندگی گزارنے کا یہ فیض ہو۔ اور مرحومہ کے اندر جو تنقید کے جراثیم ہوں وہ شارب کی دین ہوں۔“
عارف نقوی لکھتے ہیں: ”اب بھی جب میں جرمنی سے آتا ہوں تو گھر پر بیٹھ کر ہم لوگ پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ خصوصاً ہمارے بزرگوں بنے بھائی (سجاد ظہیر)، احتشام حسین اور دوستوں ذکی شیرازی، احراز نقوی، حسن عابد وغیرہ کی یادیں ہمارے دلوں کو تڑپادیتی ہیں“ ڈاکٹر مجاہد الاسلام نے شارب ردولوی کے نظریہئ ادب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی ترقی پسندی میں بھگتی، تصوف، جدیدیت اور مابعد جدیدیت بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر عمیر منظر لکھتے ہیں کہ ترقی پسند فکر و نظر کے حامل ادیب ہونے کے باوجود شارب ردولوی نے کلاسیکی افکار و نظریات کو بھی سراہا اور ترقی پسند ادیبوں کے بعض رویوں پر انھوں نے گرفت بھی کی۔ ڈاکٹر ریشماں پروین نے ’کتب خانہ شارب ردولوی‘ کے عنوان سے شارب صاحب کے ذاتی کتب خانہ کو قاری کے سامنے مجسم کردیا ہے۔ ڈاکٹر ریشماں کا ایک مضمون شارب صاحب کی شخصیت کے حوالے سے بھی ہے۔ ریسرچ اسکالر حمیرا عالیہ نے شارب صاحب کی پہلی باقاعدہ تصنیف ’جگر: فن اور شخصیت‘ پر تجزیاتی مضمون لکھا ہے۔ مضمون نگاروں میں مجتبیٰ حسین، پروفیسر صغیر افراہیم، احمد ابراہیم علوی، پروفیسر سراج اجملی، صفدر امام قادری، پروفیسر علی احمد فاطمی، ڈاکٹر صبیحہ انور،  پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر عقیل رضوی، ڈاکٹر شبنم رضوی، ڈاکٹر پروین شجاعت وغیرہ جیسی اہم شخصیات شامل ہیں۔ توقیت کے عنوان سے ریسرچ اسکالر اطہر حسین نے پروفیسر شارب ردولوی کی زندگی و خدمات کو باعتبار سنہ یکجاکردیا ہے۔ اس طرح بجا طور پر کہا جاسکتا کہ ’نذر شارب‘  شارب شناسی میں سنگ میل ثابت ہوگی۔ ٭
Sahara Urdu Daily Lucknow
14-10-2019

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Afsana kya hai? افسانہ کیا ہے؟

hayatullah ansari حیات اللہ انصاری