آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت Azad hindustan me musalmanon ki taalimi pesh raft
آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت
٭محمد راشد خان ندوی
برطانوی تسلط سے ہمارے ملک ہندوستان کی آزادی کے بعدیہاں آباد مختلف قوموں نے اپنی اپنی سطح پر ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا شروع کردیااور مجموعی طور پر ہر طبقہ نے اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کرنے کی کوشش کی جس کا کسی نہ کسی سطح پر ملک کی ترقی و خوشحالی میں اہم رول رہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا ہندوستان ایک کثیر لسانی، کثیر تہذیبی اور کثیر مذاہب والا ملک ہے اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہاں سب لوگ مل جل کر، ہم آہنگی و محبت اور بھائی چارہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ آئین نے بھی اس کی بھرپور آزادی دی ہے اور عملی طور پر سماج بھی امن و اتحاد، بھائی چارہ و یگانگت کا مزاج رکھتا ہے جس کی شہرت پوری دنیا میں ہے۔ اس ملک میں تعمیری کردار ادا کرنے میں جہاں ہندو قوم آگے آئی تو وہیں سکھ، جین، مسلمان اور عیسائیوں نے بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری ایمانداری کے ساتھ ادا کیں اور آج بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہیں۔
جب ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تو اس وقت یہاں کی تعلیمی شرح صرف 12فیصد تھی، اور اب جب کہ ملک کو آزاد ہوئے75 برس بیت گئے تو ملک تعلیمی ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے۔ اب یہاں تعلیمی شرح 74فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔ آج کے مضمون میں ہمارا موضوع گفتگو آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت و ترقی ہے۔ اس لئے آئندہ سطروں میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے بارے میں گفتگو کی جائے گی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کی دو پلیٹ فارموں سے دور کرنے کوشش کی گئی۔ ان میں ایک ہیں دینی مدارس اور دوسرے عصری درگاہیں جس میں اسکول، کالجز و یو نیورسٹیز شامل ہیں۔ ہندوستان میں دینی مدارس کے قیام کا آغاز اگرچہ آزادی سے تقریباً 60-70 برس قبل سے ہی ہو چکا تھا، لیکن آزادیئ ہند کے بعد مسلسل نئے مدرسوں کا قیام عمل میں آتا رہا۔ جس نے ملک کو بے شمار اچھے او تعلیم یافتہ شہری فراہم کئے۔ اس وقت ہندوستان میں لاکھوں مدارس ہیں، جہاں مسلسل امام اور مدرس کی ضرورت ہوتی رہتی ہے، اور ا س کی فراہمی بھی مسلسل دینی مدارس کی جانب سے کی جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان مدارس میں بڑی تعداد ان کی ہے جو حکومت سے کوئی مدد نہیں لیتے اور نہ ہی بچوں سے فیس لیتے ہیں بلکہ عوام سے چندہ کرکے مدارس کا پورا خرچ چلاتے ہیں۔
دینی مدارس کے فارغین نہ صرف اچھے شہری کے روپ میں ابھرے بلکہ انھوں نے مختلف ہائے میدان میں نمایاں کارنامہ انجام دیا۔جب کمپوٹر عام ہوا تو اس کے لیے اردو اور عربی آپریٹر کی ضرورت کی پیش آئی، جس کو چلانے کے لیے دینی مدارس کے فارغین ہی سامنے آئے۔ مدارس سے اچھے صحافی اور ادباء و شعراء بھی مسلسل نکل رہے ہیں جو مختلف زبانوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ یہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے یہاں کی تعلیمی شرح میں دینی مدارس کے تعاون سے اضافہ کرنا شروع کیا۔ جس طرح ملک کو بیک وقت انجینئر اور ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ملک کے لیے اچھے شہری کی ہمہ وقت ضرورت ہوتی ہے، اس کمی کو ملک میں پھیلے ہوئے دینی مدارس کر رہے ہیں۔
ہندوستان کے اسلامی اسکالر پدم ویبھوشن انعام یافتہ مولاناوحیدالدین خاں مرحوم کے بقول:
”مدارس کا پورا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ وہاں آدمی کو صبح و شام اخلاق و انسانیت کی تربیت دی جاتی ہے۔ وہاں رسول اور اصحاب رسول کو زندگی کے لیے رول ماڈل کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ ا س کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ مدارس عملاً ملک کے لیے اچھے شہری اور بہترانسان فراہم کرنے کے ادارے بن گئے۔ (ماہنامہ الرسالہ، ستمبر2000، صفحہ:74)
مسلمانوں کی معاشی، اقتصادی اور تعلیمی و ثقافتی صورت پر سابق چیف جسٹس راجندر سچر کی نگرانی میں ایک رپورٹ تیار ہوئی، جسے لوک سبھا میں 30نومبر2006ء کو پیش کیا گیا۔ اس کے مطابق محض چار فیصد مسلم بچے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، جب کہ تقریبا14 فیصد مسلمان ہندوستان میں آباد ہیں، جہاں مسلمانوں کی تعلیمی شرح 59 فیصد ہے، جو کہ یہاں کی عام تعلیمی شرح سے کافی کم ہے۔ سچرکمیٹی کے رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں تعلیم سے سب سے پیچھے اگر کوئی قوم ہے تو وہ مسلمان ہے۔ اس لیے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ جب مسلم قوم تعلیم میں پیچھے ہے تو اس کو دور کرنے کے لیے اس کمیونٹی سے وابستہ افراد نے کیا کیا خدمات انجام دیے ہیں۔
ملک کے مشورہ دینی مدارس میں دارالعلوم دیوبند، ضلع سہارنپور، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، دارالعلوم سلفیہ بنارس، مدرسہ الاصلاح سرائے میر، ضلع اعظم گڑھ، جامعہ الفلاح ضلع اعظم گڑھ، الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور، ضلع اعظم گڑھ، مدرسہ تاج المساجد بھوپال، جامعہ سبیل السلام عمرآباد، جامعہ سنابل دہلی وغیرہ بہت نمایاں ہیں اور ان کی خدمات بہت وسیع ہیں۔ ان میں بھی دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شہرت پوری دنیا میں ہے۔ یہ تو چند بڑے مدارس ہیں جہاں ہزاروں بچے ہاسٹل میں رہ کر مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ بے شمار مدارس ہیں جہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دے کر ان کو اچھا شہری بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مدارس کے علاوہ بھی مسلمانوں نے اپنی کوششوں سے بہت سے کالجز اور یونیورسٹیز قائم کی ہیں جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ، نئی دہلی، جامعہ ہمدرد نئی دہلی تو کسی تعارف کی محتاج نہیں اور یہ یونیورسٹیاں تو دنیا بھر کی یونیورسٹیز میں اچھی رینکنگ بھی حاصل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ لکھنؤ میں انٹیگری یونیورسٹی لکھنؤ نے بھی گزشتہ کچھ برسوں میں اچھی ترقی کی ہے۔ اس یونیورسٹی کو ڈاکٹر وسیم اختر نے قائم کیا ہے۔ ریاست کرناٹک کے ضلع بنگلور کے ماہر تعلیم ڈاکٹرممتازاحمد خان نے سنہ 1966ء میں الامین ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کی۔اس کے تحت مختلف قسم کی تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس کے ذیلی ادارے میں سے ایک الامین انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن سائنسز (اے آئی آئی ایس) ہے۔ یہاں کالج انفارمیشن سائنس کے شعبے میں پوسٹ گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ کورسز پیش کررہا ہے۔ ماسٹر آف کمپیوٹر ایپلی کیشن (ایم سی اے) اور بیچلر آف کمپیوٹر ایپلی کیشن (بی سی اے) کالج کے ذریعہ پیش کردہ کورسیز ہیں۔ کورسز کو آل انڈیا کونسل برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) اور کرناٹک کی حکومت نے منظور کیا ہے۔ یہ ادارہ بنگلور یونیورسٹی سے بھی وابستہ ہے،کالج کو قومی تشخیص اور ایکریڈیشن کونسل (این اے اے سی) کی سند حاصل ہے۔ کالج میں سیسکو تعلیمی پروگرام منعقد کررہا ہے جو طلبہ کو روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں برکت اللہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں بڑی تعداد میں طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ 1970ء میں قائم ہوئی۔ ریاست جھارکھنڈ کے ضلع جمشید پور میں کریم سیٹی کالج کا قیام1961ء میں عمل میں آیا۔ ریاست کی مشہورو معروف علمی شخصیت سید تفضل کریم نے اسے قائم کیا تھا۔ اس میں پروفیشنل کورس کرائے جاتے ہیں، جہاں کے فارغین غیر ممالک میں جا کر ہندوستان کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ ریاست جھارکھنڈ کا ایک بڑا تعلیمی ادارہ ہے، جہاں اقلیتی طبقے خصوصاً مسلمانوں کے لیے ہے۔
جامعہ اشاعت العلوم اکل کواں گجرات ایک ایسا ادارہ ہے جہاں مدرسہ کے ساتھ ساتھ میڈیکل کالج، ایم بی اے کالج و دیگر عصر علوم کے لئے کالجز قائم کئے گئے ہیں۔ اس ادارہ کے بانی مولانا غلام محمد وستانوی ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے کچھ عرصہ مہتمم بھی رہ چکے ہیں۔ رحمانی تھرٹی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ کا ایک معروف تعلیمی ادارہ ہے، جسے ہندوستان کے ممتاز مسلم عالم دین و سابق ایم ایل سی بہار قانون ساز کونسل کے مولانامحمد ولی رحمانی نے قائم کیا تھا۔ رحمانی تھرٹی کے قیام کا سب سے بڑا مقصد اقلیتی طبقے طلبا کا مستقبل سنوارنا ہے۔ اس سلسلے میں اقلیتی طبقے سے رکھنے والے 30 ہونہار اور باصلاحیت طلبا کا انتخاب کیا جاتا ہے اور انھیں جے ای ای، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، میڈیکل، سی اے، سی ایس اور قانون کے داخلے کے لیے داخلہ امتحان کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔ یہ تو ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے مصداق محض چند مثالیں ہیں۔ مسلمان اپنی سطح پر ملک میں شرح خواندگی بڑھانے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے بھی ان کو بھرپور آزادی حاصل ہے۔
جامعہ اردو علی گرھ اردو داں طبقہ کو فاصلاتی تعلیم کے ذریعہ لوگوں کو خواندہ بنانے کی مہم میں مصروف ہے۔ اس ادارہ کے تحت ادیب، ادیب ماہر، ادیب کامل کی ڈگریاں بالترتیب ہائی اسکول، انٹرمیڈیت اور گریجویشن کے مساوی مانی جاتی ہیں۔ اس کے بعد دو سالہ تربیتی کورس معلم ہے جو بی ٹی سی کے مساوی مانا جاتا ہے۔ حکومت نے اس ڈگری کی بنیاد پر ہزاروں لوگوں کو پرائمری اسکولوں میں نوکری دی ہے۔ حالانکہ فی الحال 1997ء تک معلم کرنے والوں کو ہی حکومت نے تسلیم کیا ہے۔ 1997ء کے بعد جو ڈگری ہولڈر ہیں ان کے لئے عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔
آل انڈیا تعلیم گھر اترپردیش کا ایک ایسا تربیتی ادارہ ہے جس کی شاخیں ریاست کے ہر خط میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس ادارہ کو سابق ممبر راجیہ سبھا و معروف صحافی و فکشن نگار حیات اللہ انصاری اور ان کی بیگم سلطانہ حیات اللہ انصاری نے قائم کیا تھا جس کے ڈائریکٹرس اب ان کے بیٹے سدرت اللہ انصاری اور بہو بیگم شہناز سدرت ہیں۔ آل انڈیا تعلیم گھر کا مرکزی دفتر لکھنؤ میں ہے۔ اس کے تحت دو سالہ تربیتی کور چلایا جاتا ہے جو بی ٹی سی کے مساوی ہے۔ اس ادارہ سے اب تک ہزاروں طلبہ تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ بیگم شہنا ز سدرت اس ادارہ میں اپنا تعاون دینے کے ساتھ ساتھ مسلم بچوں و بچیوں کو تعلیم و ترتیب سے آراستہ کرنے کے لئے دو اور محاذوں پر کام کررہی ہیں۔ وہ خواتین کی ایک فعال تنظیم بزم خواتین کی صدر ہیں۔ یہ بزم ہر ماہ لکھنؤ کے زنانہ پارک میں خواتین کا جلسہ کرکے انھیں اپنے بچوں کو تعلیم دینے اور اچھا شہری بنانے کے لئے بیدار کرنے کا کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کے لئے ایک ادارہ مدرسہ حیات العلوم کے نام سے چلاتی ہیں جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ بچیوں کو ہنرمند بننے کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔
٭٭٭
Comments
Post a Comment