کون سنے گا آبلہ پا مزدوروں کے ’من کی بات‘؟
کون سنے گا آبلہ پا مزدوروں کے ’من کی بات‘؟
بہار کا اسمبلی الیکشن جس کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ گزشتہ 28 اکتوبر کو ہوچکی ہے، اس
معنی میں بہت اہم ہے کہ طویل لاک ڈاؤن کے بعدہندوستان کا یہ پہلا عام اسمبلی
الیکشن ہے۔ بہار کے ساتھ ہی دو ریاستوں اترپردیش و مدھیہ پردیش میں کچھ اسمبلی
سیٹوں پرآئندہ 3 نومبر کو ضمنی الیکشن ہوں گے۔ ان دونوں ریاستوں میں بھی پریشان
حال تارکین وطن کی بڑی تعداد ہے۔ یوپی میں 7 سیٹوں پر الیکشن ہونے ہیں۔ یوپی کے
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے تقریباً ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں عام لوگوں کی
سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ اب دھرنا و مظاہرہ کرنے پر بھی مقدمہ ہوجاتا ہے۔ سی اے اے
کے خلاف دھرنوں میں جن لوگوں نے شرکت کی ان پر لکھنؤ سے لے کر رامپور تک بڑی تعداد
میں مقدمے قائم ہوئے، ملزمان کے پوسٹر تک لگائے گئے، دھرنوں و مظاہروں میں تشدد کے
دوران املاک کے نقصانات کی تلافی کے لئے نوٹسیں جاری ہوئیں۔ معمولی معمولی بات پر
این ایس اے تعمیل کردی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ ضمنی الیکشن وزیراعلیٰ یوگی کے لئے بڑا
امتحان ثابت ہوسکتے ہیں۔ 3 نومبر کو ہی مدھیہ پردیش میں بھی 28 سیٹوں پرضمنی الیکشن
ہونے ہیں۔ یہ وہ سیٹیں ہیں جو کانگریس کے سابق سینئر لیڈر جیوترادتیہ سندھیا کے
بھاجپا کا دامن تھامنے کے بعد ان کے حامی ممبران اسمبلی کے استعفے کی وجہ سے خالی
ہوئیں تھیں۔ یہ الیکشن کانگریس و بھاجپا دونوں کے لئے ’کرو یا مرو‘ جیسا ہے۔ بھاجپا
کو اپنی ریاستی حکومت بچائے رکھنے کے لئے کم سے کم 9 سیٹوں پر جتینا ضروری ہے جبکہ
کانگریس کو اگر اقتدار میں واپس جانا ہے تو اسے سبھی 28 سیٹوں پر جیت حاصل کرنی
ہوگی۔ حالانکہ کانگریس کے سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ 20، 21
سیٹیں بھی جیت جاتے ہیں تو وہ ان لوگوں کے سہارے حکومت بنا لیں گے جو عموماً حکمراں
جماعت کا ساتھ دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اب یہ تو وقت ہی طے کرے گا کس کی حکومت
بچے گی اور کس کی بنے گی مگر یہ الیکشن مدھیہ پردیش میں کئی لوگوں کے سیاسی قد کو
طے کرے گا۔ جیوترادتیہ سندھیا کی بھاجپا میں اہمیت بھی انھیں سیٹوں طے ہوگی۔ زیادہ
سیٹوں پر کامیابی انھیں بھاجپا میں مضبوط کرے گی اور اگر زیادہ سیٹوں پر شکست ملتی
ہے تو وہ بھی بہت سے باہر سے آئے ہوئے لیڈروں کی طرح بھاجپا میں حاشیے پر جاسکتے
ہیں۔ بہار اور لاک ڈاؤن کا آپس میں جتنا گہرا تعلق ہے اتنا گہرا تعلق کسی اور
ریاست کا نہیں کیونکہ اہل بہار کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے جتنی تکلیفیں اٹھانی پڑیں
اتنی تکلیفیں کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں۔ یوں تو لاک ڈاؤن نے ہر شعبہ حیات پر
منفی اثر ڈالا ہے اور ملک کی سبھی ریاستوں کے تمام طبقات کو بے انتہا تکلیفوں کا
سامنا کرنا پڑا لیکن اگر لاک ڈاؤن کی مصیبتوں و پریشانیوں کا تقابلی جائزہ لیا
جائے تو سب سے زیادہ دکھ، سب سے زیادہ تکلیف اور سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا
تارکین وطن مزدوروں و کامگاروں کو کرنا پڑا۔ ایسے وقت میں جب حکومتوں نے اپنے ہاتھ
کھڑے کرلئے جیسے ان کو عوام سے کوئی سروکار ہی نہ ہو، ایسے صبرآزما وقت میں جب
اپنے گھروں سے سیکڑوں کلومیٹر دور ممبئی، دہلی، ہریانہ و دیگر مقامات پر روزی روٹی
کمانے گئے مزدروں و کامگاروں کے رہنے کیلئے جگہ اور پیٹ بھرنے کیلئے روٹی ملنے کی
امید نہ بچی، ان بھوکے پیاسے مزدوروں کو سیکڑوں کلومیٹر کا سفر موٹر سائیکل،
سائیکل، لاری، ٹرک یہاں تک پیدل طے کرنا پڑا۔ 14-14 سو کلومیٹر کا سائیکل یا پیدل
سفر کوئی آسان کام نہ تھا۔ پیروں میںچھالے پڑ گئے، نہ جانے کتنے جان سے ہاتھ دھو
بیٹھے۔ گزشتہ مارچ و اپریل میں مزدوروں کی گھر واپسی کے تکلیف دہ مناظر آج بھی
آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ لوگ ممبئی، دہلی و ہریانہ جیسے دور دراز مقامات سے
پیدل یوپی، مدھیہ پردیش، بہار و دیگر مقامات تک گئے یہ سوچ کر کہ اگر بھوکوں مرنا
ہی ہے تو پردیس میں مرنے کی بجائے اپنے گاؤں کی مٹی میں پیوند خاک ہوں۔ ان بے بس
مزدوروں کی آبلہ پائی کے مناظر آج بھی یاد آتے ہیں تو ان کے بے بس چہرے نظروں کے
سامنے گھوم جاتے ہیں۔ بہار کے ہی کسی گاؤں کی 15 سالہ لڑکی جیوتی کماری شاید سب کو
یاد ہو جو اپنے زخمی والد کو سائیکل پر بیٹھاکر دہلی سے اپنے گھر تک 1400 کلومیٹر
تک لے گئے۔ اس نے دہلی سے اپنے گاؤں کا سفر 8 دنوں میں طے کیا۔ اس کی شہرت پوری
دنیا میں ہوگئی، صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی بیٹی نے اسے ’سائیکل گرل‘ کا خطاب دیتے
ہوئے اس کے عزم و ہمت کی داد دی تو وہ راتوں رات نہ صرف پوری دنیا میں مشہور ہوگئی
بلکہ میڈیا کی توجہ بھی اسے مل گئی جس سے شہرت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے اس پر تحائف
کی بھی بارش کردی۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر مزدور کی قسمت
جیوتی کماری جیسی تو نہیں تھی۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مزدوروں نے دہلی، ہریانہ و
ممبئی سے بہار کا پیدل و سائیکل سے سفر کیا، صعوبتیں اٹھائیں، آبلہ پائی کی،
مشقتیں برداشت کیں لیکن میڈیا نے ان مزدروں کی بے کسی و بے بسی کی ایسی تصویریں
نہیں کھینچی کہ ان کو بھی لوگوں کی ہمدردیاں مل جاتیں، حکومتوں کے دل نرم پڑ جاتے
اور اگر ان پر مال و دولت کی بارش نہ بھی ہوتی تو کم از کم حکومتیں ہی ان کو پیدل و
سائیکل سے جانے سے روک کر بسوں و ٹرینوں کا انتظام کردیتیں۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں
ہوا۔ بے بس مزدور چلتے رہے اور کسی طرح رینگتے گھسٹتے ہوئے اپنے گھروں کو پہنچے۔
بڑی حیرت کی بات ہے کہ آج جب بہار اسمبلی کا الیکشن ہو رہا ہے اور آئندہ 3 نومبر
کو یوپی کی 7 اور مدھیہ پردیش کی 28 سیٹوں پر اسمبلی کا ضمنی الیکشن ہونا ہے، ایسے
میں تارکین وطن مزدوروں کے درد اور ان کی بے بسی کو کسی نے بڑا ایشو نہیں بنایا۔
پورے ملک میں اچانک لاک ڈاؤن ہونا، بھوک سے بے حال لاکھوں مزدوروں و کامگاروں کا
پیدل اپنے گھروں کو نکل پڑنا، یہ کوئی معمولی بات ہے؟ اپنے ہی ملک میں لاکھوں
مزدروں کا بے یار و مددگار سڑکوں آبلہ پائی کرنا، یہ چھوٹی بات ہے؟ آخر ان بے بس
لوگوں کے من کی بات کون سنے گا؟عوام کی منتخب کی ہوئی حکومت اگر اپنے ہی عوام کے
دکھ و مصیبت کے وقت ان کے ساتھ نہ کھڑی ہو تو پھر وہ کب اور کس کے کام آئے گی؟ یہ
وہ سوالات ہیں جو چاہے کسی پارٹی کے لئے مدعا و ایشو ہوں یا نہ ہوں لیکن جن مزدوروں
نے یہ مصیبیں جھیلیں ہیں، جو سیکڑوں کلو میٹر پیدل یا سائیکل و موٹر سائیکل سے یا
لاریوں پر کسی طرح آئے ہیں ان کے لئے یقیناً ان کی آبلہ پائی بہت بڑا ایشو ہے۔ یہ
وہ ایشو ہے جس سے سیاسی پارٹیاں نظریں چرا سکتی ہیں مگر جن پر یہ مشکل وقت گزرا ہے
وہ اسے شاید ہی بھول پائیں۔ ٭
محمد راشد خان ندوی
published on 30-10-2020
اسلام عليكم
ReplyDelete