کورونا نے خواتین کو باجماعت نماز ادا کرنے کا تحفہ دیا
خواتین کا عمومی تاثر٭ عورتوں کیلئے منظم طریقے سے دینی و اصلاحی پروگرام چلانے کی شدید ضرورت 
(لکھنؤ (راشد خان ندوی/ ایس این بی
کورونا وبا کے سبب پورے ملک میں گزشتہ 25 مارچ سے چل رہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں بازاوروں میں سناٹا ہے، عوامی ٹرانسپورٹ معطل ہیں، وہیں اس کا اثر تمام مذہبی عبادت گاہوں پر بھی پڑا۔ مسجد، مندر، چرچ و گرودارے بھی عام لوگوں کے لئے بند ہیں۔ عبادت گاہوں میں رہنے والے چند لوگ ہی فاصلہ رکھتے ہوئے اجتماعی عبادت میں شرکت کرسکتے ہیں۔ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس مرتبہ رمضان کے مبارک ماہ میں مساجد کے آس پاس یقیناً سابقہ چہل پہل نظر نہیں آئی جس سے لوگوں کو روحانی غذا ملنے میں کچھ ’کمی‘ محسوس ہوئی تو دوسری طرف کلچہ نہاری، شیرمال کباب و بریانی کی دکانیں بند ہونے سے لوگ لذت دہن سے بھی محروم رہے، لیکن اس لاک ڈاؤن کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اگر مساجد کے دروازے عام لوگوں کے لئے بند ہوئے تو اس کی وجہ سے تقریباً تمام گھر مساجد میں تبدیل ہوگئے۔ حفاظ کرام تراویح کے آخر میں ملنے والے مادی نذرانوں سے محروم ضرور رہے لیکن کسی حافظ کو یہ شکایت نہیں رہی کہ اس کو تراویح سنانے کے لئے مقتدی نہیں ملے۔ جن گھروں میں حفاظ نہیں تھے وہاں لوگوں نے سورہ تراویح باجماعت ادا کی۔ اس لاک ڈاؤن کا ایک بڑا فیض یہ بھی رہا کہ عموماً خواتین اور بچوں، بچیوں نے بھی اپنے گھروں میں باجماعت نماز تراویح اور روزوں کے اختتام پر یکم شوال المکرم کو نماز عیدالفطر ادا کی۔ متعدد خواتین نے بتایا کہ انھوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ جماعت سے تراویح و عیدالفطر کی نماز ادا کی۔ اس سلسلہ میں مزید گفتگو کرنے پر اس بات کا بھی شدت سے احساس ہوا کہ خواتین کے لئے منظم طریقے سے دینی و اصلاحی پروگرام چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ 
آج کے ماحول میں جب ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعہ تفریح کے نام پر معاشرہ کو بگاڑ کی طرف دھکیلنے کی منظم کوششیں ہو رہی ہے، گھروں میں دینی فضا کا فقدان ہے، ایسے وقت میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ خواتین تک دین کی صحیح معلومات پہنچانے کے لئے بڑی مساجد اور دیگر مقامات پر ان کے لئے درس قرآن و درس حدیث اور عام دینی معلومات کے حلقے ترتیب دیئے جائیں۔ اس سلسلہ میں دینی درسگاہوں کی تعلیم یافتہ خواتین اہم خدمات انجام دے سکتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خواتین کو عضو معطل بنادیا جانا امت مسلمہ کی پسماندگی کا ایک بڑا سبب ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی فعالیت اور ان کی شراکت کے بغیر کسی قوم کی ترقی و خوشحالی ممکن نہیں اور یہ شراکت تبھی ممکن ہے جب خواتین بھی دینی و عصری علوم سے آراستہ ہوں۔ امت مسلمہ کا درد رکھنے والے علماء اور عمائدین کو اس جانب ضروری توجہ کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس معاملہ میں سرگرم ہماری خواتین کا فیصد بہت کم ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Afsana kya hai? افسانہ کیا ہے؟

hayatullah ansari حیات اللہ انصاری