interview s r darapuri انٹرویو ایس آر داراپوری

سی اے اے مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے: ایس آرداراپوری
,مظاہروں کے دوران تشدد میں اجنبی لوگ ملوث تھے
خواتین کا گھروں سے نکل کر سڑک پر احتجاج جمہوریت کے لئے نیک شگون
سبکدوش آئی پی ایس، ایس آر داراپوری سے ڈاکٹرحمایت جائسی و راشد خان ندوی کی خصوصی بات چیت
لکھنؤ۔ ایس آر داراپوری 1972 بیچ کے آئی پی ایس افسر ہیں۔ انھوں نے یوپی میں 32 برس پولیس محکمہ کو اپنی خدمات دیں اور دسمبر 2003 میں آئی جی رینج سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد سے ہی وہ سماجی و سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ انسانی حقوق اور دلت حقوق کے لئے کام کرتے ہیں۔ آل انڈیا پیپلس فرنٹ کے قومی ترجمان ہیں۔ رابرٹس گنج (اترپردیش) سے دو مرتبہ پارلیمانی الیکشن بھی لڑچکے ہیں۔ دہشت گردی سے جڑے معاملوں میں فرضی طور پر پھنسائے گئے لوگوں کو بچانے کے لئے بھی وہ اور ان کے ساتھی جد و جہد کرتے رہتے ہیں۔ جے پور بم کیس میں پھنسائے گئے شہباز نامی نوجوان کو ان کی کوششوں سے عدالت نے بری کیا۔ ابھی حال ہی میں گزشتہ 19 دسمبر کو لکھنؤ میں ہوئے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کے وقت انھیں ہاؤس اریسٹ رکھا گیا، بعد میں گرفتار بھی کیا گیا اور کئی دنوں کے بعد ضمانت پر چھوڑا گیا۔ وہ دلت تحریکوں سے عرصے سے جڑے ہیں اور ملک کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے خصوصی ملاقات میں انھوں نے موجودہ حالات اور سیاسی منظرنامہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ایک سوال کے جواب انھوں نے کہا کہ ہم دھرم و ذات کی سیاست نہیں کرتے بلکہ ہم ایشوز پر لڑتے ہیں۔ آدی باسیوں اور دلتوں کے لئے زمین کی لڑائی اور کسانوں و مزدوروں کے مسائل حل کرنے کی لڑائی ہم برابر لڑ رہے ہیں۔ ملک کی ترقی کے لئے جدوجہد کے ساتھ ہی غیرقانونی کانکنی کے خلاف بھی ہم تحریک چلاتے رہتے ہیں۔
شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے سلسلہ میں انھوں نے کہا کہ یہ ملک کا پہلا قانون ہے جو دھرم کی بنیاد پر ایک طبقہ کے ساتھ بھید بھاؤ کرتا ہے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ آخر حکومت نے مسلمانوں کو اس قانون میں مستثنیٰ کیوں کیا۔ آئین ِ ہند میں مساوات ہے، ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، آئین تفریق کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ قانون آئین کی روح کے خلاف ہے۔ آئندہ اپریل سے شروع ہونے والے این پی آر کے سلسلہ میں انھوں نے کہا کہ ملک میں پہلے جو این پی آر ہوا آئندہ ہونے والا این پی آر اس سے مختلف ہے۔ موجودہ این پی آر میں وہ معلومات طلب کی جا رہی ہیں جن کا ثبوت بیشتر لوگ پیش نہیں کر پائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ کوئی مجھ سے میرے والد اور والدہ کی جائے پیدائش اور ان کی تاریخ پیدائش پوچھے تو میں خود اس کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ خاص طور سے کوئی شخص اپنی والدہ کی تاریخ پیدائش کا ثبوت کیسے دے سکتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے نام پر لوگوں میں خوف پیدا کردیا ہے۔ انھوں نے آسام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ہوئی این آر سی کے دوران میں نے وہاں ایک ہفتہ قیام کیا تھا، وہاں لوگوں سے اتنے کاغذات مانگے گئے اور چھوٹی سے چھوٹی کمی ہونے پر بھی جتنا پریشان کیا گیا وہ ناقابل بیان ہے۔ آسام میں جس کے کاغذات میں ذرا بھی شبہ ہوا اس کے آگے ’ڈی‘ یعنی مشتبہ لکھ دیا گیا اور ڈی لکھتے ہی وہ تمام سرکاری مراعات سے محروم کردیا گیا۔ اب خود اسے ثابت کرنا ہے کہ وہ ہندوستانی شہری ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کے بیان کے بعد اب یہی خطرہ پورے ملک پر منڈلا رہا ہے۔ داراپوری نے کہا کہ بڑی تعداد میں لوگ مزدوری کرنے یا نوکری کرنے کے لیے اپنا آبائی شہر و گاؤں چھوڑ کر دوسرے شہر جاتے ہیں اور وہیں آباد ہوجائے ہیں۔ اور یہ تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایسے لوگ پرانے کاغذات کہاں سے پیش کریں گے۔ غریبوں، آدی باسیوں، مزدوروں، بے زمینوں اور نقل مکانی کرنے والوں کے پاس اپنے ماں، باپ، دادا، دادی کی تاریخ پیدائش کا ثبوت کہاں سے آئے گا؟ یہ بات حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سوچنی چاہئے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر کسی قانون کی مخالفت ہو رہی ہے اور یہ مخالفت و احتجاج بڑھتا ہی جا رہا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت مظاہرین کی بات سننے کے بجائے ان کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آسام میں این آر سی سے الگ ہوئے 19 لاکھ لوگوں میں تقریباً 14 لاکھ ہندو ہیں اور یہ بیشتر دلت ہیں جنھیں آسام میں دلت راجونشی کہا جاتا ہے۔ دلت راجونشیوں کو بنگال وغیرہ میں ایس سی میں شامل کیا گیا ہے جبکہ آسام میں انھیں جنرل زمرہ میں رکھا گیا ہے جس کی وہ لڑائی لڑ رہے تھے کہ انھیں ایس سی زمرہ میں رکھا جائے لیکن ان کا یہ مطالبہ پورا کرنے کے بجائے انھیں این آر سی کے نام پر شہریت سے ہی خارج کردیا گیا۔
کیا آسام میں این آر سی سے خارج ہوئے 14 لاکھ ہندوؤں کو سی اے اے کے تحت شہریت مل سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پہلے تو انھیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ بنگلہ دیش، پاکستان یا افغانستان سے آئے ہیں۔ پھر یہ ثبوت دینا ہوگا کہ وہ استحصال کی وجہ سے آئے ہیں۔ اور یہ تو صرف آسام کا معاملہ ہے، اگر پورے ملک میں این آر سی ہوتی ہے اور کروڑوں لوگ این آر سی سے باہر ہوجاتے ہیں تو اس کا تجزیہ آپ آسام کی صورت حال کو سامنے رکھ کر کر سکتے ہیں۔
سی اے اے/این پی آر کے خلاف چل رہے مظاہروں کے سلسلہ میں انھوں نے کہا کہ حکومت نے ان مظاہروں کو ہندو- مسلم میں بانٹنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ گزشتہ 19 دسمبر کو لکھنؤ میں ہوئے مظاہرہ کے سلسلہ میں انھوں نے کہا کہ یہ مظاہرہ کئی سیاسی و سماجی تنظیموں کی اپیل پر ہوا تھا جس میں بڑی تعداد میں غیرمسلم شریک ہوئے اور گرفتار بھی کئے گئے۔ جیسے دیپک کبیر، روبن ورما، پون راؤ امبیڈکر وغیرہ۔ یہ تو بڑے نام ہیں جو گرفتار ہوئے ورنہ غیرمسلم شرکاء کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ مظاہرہ میں ہوئے تشدد پر انھوں نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی تھی، انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اتنے زیادہ لوگ آئیں گے۔ دوسری بات یہ کہ تشدد مظاہرین نے نہیں کیا بلکہ کچھ اجنبی لوگوں نے کیا جن کے بارے میں 20 دسمبر کے اخباروں میں خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ باہر کے لوگ دیکھے گئے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ یہ تشدد کروایا گیا تاکہ تشدد کے نام پر مظاہرین کو سبق سکھانے کا موقع ملے۔ انھوں نے کہا کہ مظاہرہ کے بعد زیادہ تر بے قصور لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کی زبردست پٹائی کی گئی۔ میں تو اپنے گھر میں نظربند تھا پھر بھی مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ انھوں نے حکومت کے ذریعہ نقصان کی تلافی کے لئے وصولی کرنے کو ظلم اور دبانے کا طریقہ بتایا۔داراپوری نے کہا کہ حکومت کی شہ ملنے کی وجہ سے پولیس اب زیادہ کمیونل ہوگئی ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ سننے میں یہاں تک آیا کہ کچھ جگہوں پر مظاہرہ کے دوران زخمی لوگوں کا سرکاری ڈاکٹروں نے علاج تک کرنے سے انکار کردیا۔ انھوں نے کہا کہ سرکاری مشینری کا کمیونل ہوجانا جمہوریت کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ یہ فاشزم ہے۔ایک سوال کے جواب میں ایس آر داراپوری نے کہا کہ خواتین کا اتنے وسیع پیمانے پر گھروں سے نکل کر سڑک پر آنا اور آئین کو بچانے کے لئے آواز اٹھانا جمہوریت کے لئے نیک شگون ہے۔ پردہ نشین عورتوں کا دھرنا و مظاہرہ کرنا، تقریریں کرنا، نعرے لگانا اور آدھی آبادی کا اس طرح سے بیدار ہوجانا بہت بڑی اور اچھی بات ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود مظاہرے بڑھ رہے ہیں۔ عوام حکومت سے ڈرے نہیں ہیں۔ حکومت کے لئے اب اس تحریک کو دبانا آسان نہیں۔ انھوں نے کہا کہ عوام کو پُرامن طریقے سے اپنا احتجاج نہ صرف جاری رکھنا چاہئے بلکہ اسے مزید وسعت دینا چاہئے اور تب تک احتجاج ہوتے رہنا چاہئے جب تک یہ تفریق آمیز قانون واپس نہ ہوجائے۔ داراپوری نے کہا کہ میں پہلے بھی اس احتجاج میں شامل تھا اور آج بھی شامل ہوں۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Afsana kya hai? افسانہ کیا ہے؟

hayatullah ansari حیات اللہ انصاری