کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے راشد خان ندوی, KarwaN Guzar Gya Ghubar Dekhte Rahe, Rashid Khan Nadwi
Published in Sahara Urdu Daily
11-11-2019
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
محمد راشد خان ندوی
پولیس فورس کے فلیگ مارچ، مارک ڈرل اور امن و امان برقرار رکھنے کی اپیلوں کی کارروائی کئی ہفتوں سے چل رہی تھیں۔ اجودھیا تو چھاونی میں تبدیل کر دی گئی تھی، کوئی شہر، قصبہ، یہاں تک کہ بہت سے مواضعات میں بھی پولیس کا گشت مسلسل جاری تھی۔ دور دراز کے بعد بعض مواضعات سے یہاں تک خبریں تھیں کہ دو پولیس اہلکار گشت پر آتیہیں، ان کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد پھر دو اہلکار پہنچتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ انتظامیہ کی مستعدی کا یہ عالم تھا کہ مساجد کے ائمہ کرام کے ساتھ میٹنگیں کی گئی، جس کے نتیجے میں جمعہ کی نمازوں کے بعد امن و امان برقرار رکھنے اور صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیلیں جاری کی گئیں۔ ایک سوال لوگ ضرور کر رہے تھے کہ یہ اپیلیں صرف مساجد سے ہی کیوں جاری کی جا رہی ہیں، امن و امان کی میٹنگیں صرف علماء کے ساتھ ہی کیوں کی جا رہی ہیں، معاملہ تو دو فریقوں کا ہے تو اپیلیں بھی ہر طرف سے جاری ہونی چاہئے لیکن یہ سوال اس وقت بے معنی ہوگیا جب دوسرے فریق کی طرف سے بھی امن و امان قائم رکھنے اور صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیلیں پرنٹ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر جاری ہونے لگیں یہاں تک کہ جو لوگ کھلے عام کہا کرتے تھے کہ یہ ہمارے آستھا کا معاملہ ہے، ہمارے آستھا کے خلاف فیصلہ آیا تو ہم عدالت کی بھی نہیں مانیں گے وہ بھی کہنے لگے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ آئے سب کو ماننا چاہئے تو لوگوں کو حیرت آمیز خوشگواری کا احساس ہونے لگا۔ اندازہ تھا کہ فاضل چیف جسٹس کی سبکدوشی کی تاریخ 17 نومبر ہے، بس اس سے ایک - دو روز قبل فیصلہ آئے لیکن 8 نومبر کی دیر شام ٹی وی پر خبریں چلنے لگیں کہ 9 نومبر کو فیصلہ سنا دیا جائے۔ اس غیرمتوقع خبر سے ایک ہلچل سی مچ گئی۔ بازاروں میں راشن و سبزی کی دکانوں پر بھیڑ امڈ پڑی۔ فیض آباد سے ایک صاحب کا فون آیا کہنے لگے دودھ، سبزی اور راشن کی دکانوں پر کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے، ہر چیز کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، بعض دکاندار جو اپنی دکانیں بند کرکے گھر جار ہے تھے انھوں نے پھر سے دکانیں کھول دی ہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے چاند رات ہو لیکن مسرت آمیز کی بجائے خوف آمیز۔ کسی طرح اللہ اللہ کرکے رات گزری، صبح ہوئی، فاضل چیف جسٹس صاحب نے نصف گھنٹے میں فیصلہ سنانے کا اشارہ دیا تھا مقررہ وقت کے مطابق فیصلے کی ایک ایک شق ٹی وی اسکرین پر آتی ہی اور نصف گھنٹے میں مطلع پوری طرح صاف ہوگیا۔ مقدموں میں عموماً ایک فریق کی ہار اور دوسرے کی جیت ہوتی ہے لیکن دہائیوں سے چل رہے اس مقدمے میں بڑوں کا کہنا ہے کہ کسی کی ہار یا جیت نہیں ہوئی۔
فیصلہ آنے کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ اس فیصلے سے عوامی جذبات، آستھا اور عقیدت کو انصاف ملا ہے۔ انھوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ ملک کے سبھی عوام باہمی بھائی چارہ برقرار رکھیں اور قانون اور آئین کی حد میں رہ کر اخلاقی طریقے سے اپنی خوشی ظاہر کریں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ انصاف کے مندر نے دہائیوں پرانے معاملے کا خیر سگالی پر مبنی حل دیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ اور بی جے پی کے صدر امت شاہ نے کہا کہ یہ فیصلہ ملک کو اتحاد، سالمیت اور قوت فراہم کرے گا۔ مقدمہ کے ایک فریق سنی سنٹرل وقف بورڈ اترپردیش کے چیئرمین زفرفاروقی نے فیصلہ پوری طرح تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ مقدمہ کے ایک فریق اقبال انصاری نے اس فیصلہ پر خوشی کا اظہار کیا۔ دوسری طرف مقدمہ کے دیگر فریقوں وکچھ اہم لیڈروں نے عدالت کے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے فیصلہ پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے۔ ظفریاب جیلانی ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں، مگر ہم مطمئن نہیں ہیں۔ ہم بعد میں اس سلسلہ میں آگے کی کارروائی کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ جمعیۃ علماء کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ اقتدار اعلیٰ ہے۔ مسلمان مایوسی کا شکار نہ ہوں، اللہ پر بھروسہ کریں اوراپنی مسجدوں کو آبادرکھیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ اللہ کے گھر کی حفاظت کی جو ذمہ داری مسلمانوں پر ہے بورڈ نے آپ سب کی طرف سے پوری طرح اس ذمہ داری کو ادا کیا ہے۔ آپ مایوس اور بد دل نہ ہوں اور اپنی طرف سے ہرگز ایسے ردعمل کا اظہا رنہ کریں، جس سے ملک کا امن وامان متأثر ہو۔ ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی عدلیہ پر ہمیں اٹوٹ بھروسہ ہے۔ مسلمان اپنے قانونی حق کے لئے لڑ رہے تھے، میری سمجھ سے مسلمانوں کو 5 ایکڑ زمین کا آفر مسترد کردینا چاہئے۔ مہاتما گاندھی کے پوتے تشارگاندھی نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر مہاتما گاندھی کی موت کے معاملے میں سپریم کورٹ میں آج پھر سے سماعت ہوتی ہے تو فیصلہ یہی ہوگا کہ ناتھو رام گوڈسے ”ایک قاتل لیکن دیش بھکت“۔ اس پورے منظرنامے اور مذکورہ آرا کو دیکھتے ہوئے بس یونہی ذہن میں معروف ہندی کوی آنجہانی گوپال داس نیرج کی ایک طویل نظم کے کچھ اشعار یاد آرہے ہیں۔ آپ بھی پڑھتے چلئے:
ہاتھ تھے ملے کہ زلف چاند کی سنوار دوں
ہونٹھ تھے کھلے کہ ہر بہار کو پکار دوں
درد تھا دیا گیا کہ ہر دکھی کو پیار دوں
اور سانس یوں کہ سورگ بھومی پر اتار دوں
ہو سکا نہ کچھ مگر شام بن گئی سحر
وہ اٹھی لہر کہ ڈھہ گئے قلعے بکھر بکھر
اور ہم ڈرے ڈرے نِیَر نَیَن میں بھرے
اوڑھ کر کفن پڑے مزار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہتے
بہرحال عدالت کا پورا حترام ملحوظ رکھتے ہوئے اس تاریخی فیصلہ پر ہر کسی کو غور و فکر کرنے کا حق ہے۔ مسلم طبقہ کو بھی اس فیصلے کے مضمرات پر غور کرکے ایک مثبت طرز عمل اپناتے ہوئے نئے سرے سے اپنی تعلیمی و معاشی ترقی کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑے اگر کہہ رہے ہیں کہ اس مقدمہ میں کسی کی ہار یا جیت نہیں ہوئی بلکہ ایک قدیم ترین تنازعہ کا خاتمہ ہوا ہے تو اس میں بھی حکمت پوشیدہ ہے۔ مسلمانوں نے یقیناً بابری مسجد کا مالکانہ حق قانونی طور پر کھودیا لیکن عام برادران وطن کا دل جیتا ہے اور یہ اتنی بڑی کامیابی ہے جو شاید ہزاروں خیرسگالی جلسوں سے نہیں حاصل ہوپاتی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ برادران وطن کے دلوں میں ہمارے خلاف بھری گئی غلط فہمیاں ہیں۔ اس فیصلہ سے قبل علماء کی طرف سے امن و امان برقرار رکھنے کے لئے مسلسل کی گئی اپیلوں کا ہی شاید یہ اثر تھا کہ بالکل خلاف توقع فیصلہ آنے کے باوجود کہیں سے کسی ناخوشگوار ردعمل کی اطلاع نہیں آئی۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کے طرز عمل، ان کی سوجھ بوجھ، ان کی دور اندیشی اور جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے کی وجہ سے برادران وطن میں ایک مثبت پیغام گیا ہے۔ اگر یہ فضا برقرار رہے بلکہ اسے مزید فروغ دینے کی کوشش کی جائے تو یقیناً یہ فضا ملت و ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کرے گی۔
Comments
Post a Comment