کب تک رلاتی رہے گی پیاز/ محمد راشد خان ندوی, kab tak rulati rahegi pyaz
publish in sahara urdu
25-11-2019
کب تک رلاتی رہے گی پیاز
محمد راشد خان ندوی
روٹی، کپڑا، مکان اور علاج انسانوں کی بنیادی سہولیات میں شامل ہے لیکن آج ان چاروں چیزوں کا حصول سب سے مشکل ہوگیا ہے۔ اب سے تقریباً 6 برس قبل ’کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ دے کر پارلیمانی الیکشن میں تاریخی جیت درج کرنے والے بھارتیہ جنتا پارٹی نے عوام کو لبھانے کے لئے جو سب سے بڑا نعرہ دیا تھا وہ مہنگائی کم کرنے کا تھا۔ کانگریس کے دور حکومت میں سبزیوں کی مہنگائی بڑھنے پر بی جے پی کی قومی سطح کی خواتین لیڈران پیاز کا ہار پہن مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتی تھیں لیکن بھاجپا کی پوری اکثریت کے ساتھ حکومت بننے پر مہنگائی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ پہلا پانچ سالہ اقتدار تو یہ کہتے ہوئے گزر گیا کہ کانگریس نے ملک کا اتنا برا حال کردیا ہے کہ اسے پٹری پر لانے میں کافی وقت لگے گا جس پر عوام نے بھروسہ کرکے پھر سے بی جے پی کو پانچ سال کے لئے اقتدار سونپ دیا۔ لیکن مہنگائی ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ دیگر چیزیں جو مہنگی ہو رہی ہیں وہ اپنی جگہ، روزہ مرہ استعمال کی جانے والی سبزیاں بھی عام آدمی کے دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ مہاراشٹر الیکشن سے قبل پیاز کا دام 80 روپئے فی کلو تک پہنچ گیا تھا تب یہ خبریں آرہی تھیں کہ پیاز کی آمد مہاراشٹر و اس کے اطراف سے زیادہ ہوتی ہے اور وہاں الیکشن ہے اس لئے دام بڑھ گئے ہیں۔ صورت حال تھوڑی بہتر ہوئی تھی کہ پھر سے پیاز نے رلانا شروع کردیا۔ اس مرتبہ پیاز کی قیمت بڑھنے کی وجہ پیاز پیدا کرنے والی ریاستوں میں سیلاب اور زیادہ بارش ہے۔ مہنگائی کی مار صرف پیاز، آلو و ٹماٹر پر ہی نہیں ہے بلکہ موسم سرما میں بہت کم قیمت پر ملنے والے ساگ و دیگر ہری سبزیوں کے دام بھی آسمان چھو رہے ہیں۔
’دفتر قومی اعداد و شمار‘کے مطابق ملک کے کئی شہروں میں اس وقت پیاز کی قیمت 70 سے سو روپئے فی کلو کے درمیان ہے۔ حکومت نے پیاز کی قیمتوں پر لگام کسنے کے لئے پہلے ساڑھے چار ہزار ٹن پیاز کی درآمد کا آرڈر تھا اور اب مزید ایک لاکھ ٹن پیاز درآمد کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ ملک میں پیاز کی قلت کی وجہ سیلاب اور زیادہ بارش سے کئی ریاستوں میں پیاز کی فصل خراب ہوجانے کے ساتھ ساتھ ضروری اسٹاک کا نہ ہونا بتایا جا رہا ہے۔ مہاراشٹر، آندھر پردیش، گجرات اور کرناٹک جیسی پیاز پیدا کرنے والی ریاستوں میں فصل کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اس کے سبب خریف سیزن کی پیاز کی بازار میں آمد ہونے کے باوجود قیمتوں میں کمی نہیں آرہی ہے۔ تاجر کہتے ہیں کہ پیداوار کم ہونے کی وجہ سے کسانوں سے ہی ہمیں مہنگی قیمت پر پیاز خریدنی پڑ رہی ہے۔ جمع خوری اور منافع خوری کو بھی پیاز کی بڑھتی قیمتوں کے لئے ایک سبب بتایا جا رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے انکم ٹیکس محکمہ نے مہاراشٹر میں کئی پیاز تاجروں پر چھاپے بھی مارے ہیں۔
جے کسان آندولن کے قومی کنوینر اور معروف کسان لیڈر اَوِیک سَہا کہنا ہے کہ کلائمیٹ کی تبدیلی کے سبب موسم کے مزاج میں مسلسل تبدیلی آرہی ہے۔ اس کے سبب آنے والے وقت میں دیگر فصلوں کی پیداوار پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ کسان لیڈر کہتے ہیں کہ جب حکومت کو پتہ تھا کہ اس مرتبہ پیاز کی فصل کم ہوگی تو اسے اس کی درآمد کے لئے فوری قدم اٹھانے چاہئے تھے اور پیاز کا ضرورت بھر ذخیرہ کرلینا چاہئے تھا، مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور نتیجہ سامنے ہے۔ مسٹر سہا کے مطابق حکومت کو پیاز کے اسٹوریج کے ذرائع کو فروغ دینا ہوگا اور قومی سطح پر اسے اسٹور کرنے کے انتظامات کرنے ہوں گے۔ اس سے جس ریاست کو جتنی پیاز کی ضرورت ہوگی، وہ لے سکے گی اور قیمت بھی کنٹرول میں رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ملک میں پیاز کی فصل زیادہ ہوتی ہے تو اس کا ذخیرہ کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے حکومت نے باقاعدہ ایک فنڈ بنا رکھا ہے۔ اس سے جہاں کسانوں کو ان کی پیداوار کی صحیح قیمت مل سکے گی وہیں اس کی قلت بھی نہیں ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ پیاز کی فصل خراب ہونے پر کئی مرتبہ کسان اسے اگانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے بھی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔
ایک جائزہ کے مطابق صارفین کے ذریعہ آلو، پیاز اور ٹماٹر کے لئے ادا کی گئی قیمت کا 25-30 فیصد ہی کسانوں تک پہنچ پاتا ہے۔ ان فصلوں میں ’امول ماڈل‘ نافذ کرنا ہوگا جس میں دودھ کے صارفین کے ذریعہ ادا کی گئی قیمت کا 75-80 فیصد حصہ کسانوں کو ملتا ہے۔ دلال سبزیوں میں بھی خوب کماتے ہیں۔ ان کا رول کم کرنا ہوگا۔ ایسے ادارے قائم کرنے ہوں گے جو ان سبزیوں کو کسانوں سے خرید کر سیدھے صارفین تک پہنچانے کا کام کریں۔ چودھری پشپیندر سنگھ صدر کسان شکتی سنگھ کے مطابق آلو، پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لئے حکومت نے پچھلے برس 500 کروڑ روپئے کی ’ٹاپ‘ (ٹومیٹو، اونین، پوٹیٹو) اسکیم شروع کی تھی جس کا اصل مقصد ایک طرف صارفین کو مناسب قیمت پر سال بھر ان کی سپلائی یقینی بنانا اور دوسری طرف کسانوں کو بہتر قیمت دینا تھا۔
سبزیوں میں مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو آلو، پیاز اور ٹماٹر کی پیداوار سب سے زیادہ ہے اور کھپت بھی سب سے زیادہ انھیں تینوں سبزیوں کی ہے۔ ان تینوں میں بھی سب سے بڑی فصل آلو کی ہے جس کی 2018-19 میں 530 لاکھ ٹن پیداوار ہوئی۔ اسی طرح پیاز کی پیداوار اس برس 235 لاکھ ٹن اور ٹماٹر کی 194 لاکھ ٹن پیدوار ہوئی۔ ان تینوں فصلوں کی پیداوار ملک کی گھریلو مانگ سے زیادہ ہو رہی ہے اور ہمارا ملک ان کو ایکسپورٹ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ملک میں تقریباً 8000 کولڈ اسٹوریج ہیں لیکن ان میں سے 90 فیصد اسٹوریج میں صرف آلو رکھا جاتا ہے۔ ٹماٹر کو تو لمبے عرصے تک نہیں رکھا جاسکتا لیکن پیاز کو رکھنے کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا ملک زراعت پر منحصر ملک ہے۔ زراعت کی اہمیت کو ہی دیکھتے ہوئے 1965 میں اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے جے جوان- جے کسان کا نعرہ دیا تھا۔ ایسے زراعت پر مبنی ملک میں اگر ایک ایسی پیدوار درآمد کرکے لوگوں کو مہنگے داموں پر مہیا کرائی جائے جو پیداوار خود اس ملک میں اپنی ضرورت سے زیادہ ہوتی ہو تو یقیناً یہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت آلو، پیاز و دیگر گھریلو پیدوار کے تحفظ اور ان کے اسٹوریج کے لئے وسیع پیمانے پر انتظامات کرے۔ اس سے نہ صرف عام آدمی کی جیبوں پر بار کم پڑے گا بلکہ مہنگائی پر قابو کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
Comments
Post a Comment