یوپی: پارٹیوں سے دور ہو رہا ہے ان کا روایتی ووٹ بینک!

Published in Sahara Urdu on 30-9-2019
یوپی: پارٹیوں سے دور ہو رہا ہے ان کا روایتی ووٹ بینک!
محمد راشد خان ندوی
سیاست اعداد و شمار کا کھیل ہے۔ اس کھیل کے ماہرین خاص طور سے شمالی ہند کی ریاستوں میں بند کمروں میں بیٹھ کر ذات برادی و طبقاتی بنیادوں پر ووٹوں کی بندربانٹ کرلیتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون سی برادری یا طبقے کا ووٹ کس پارٹی کو جائے گا اور کون سی برادری یا طبقہ ایسا ہے جو کسی کا ’ووٹ بینک‘ نہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ جو اپنے کسی قائد پر اعتماد نہیں کرتا۔ بس اسی طبقہ پر ہر کوئی داؤں لگاتا ہے اور عموماً ہوتا یہ ہے کہ جس طرف یہ ’بے قائد‘ طبقہ جھک جاتا ہے اس کا پلرا بھاری پڑ جاتا ہے۔ یوپی میں 12 اسمبلی سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہونا تھا جس میں سے ایک سیٹ ہمیرپور پر پہلے ہی الیکشن کرالیا گیا، اس کا دو دن قبل نتیجہ بھی آگیا لیکن نتیجہ سے ثابت ہوا کہ یہاں کسی سیاسی پنڈت کے اعداد و شمار کام نہیں آئے۔ دراصل 2014ء کے عام پارلیمانی الیکشن سے عوامی رجحان کی جو روایت شروع ہوئی ہے وہ ہر الیکشن میں ماہرین کے اعداد و شمار کے کھیل کو بگاڑتی آرہی ہے۔ سچائی کیاہے یہ تو تحقیق اور ریسرچ کا موضوع ہے لیکن ان نتائج سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سپا، بسپا اور کانگریس کا روایتی ووٹ بھی اب ان سے دور ہوگیا ہے۔ 2014 اور اس کے بعد2019کے عام پارلیمانی انتخابات میں پورے ہندوستان نے اس کا مشاہدہ کیا اور 2017 کے یوپی کے عام اسمبلی الیکشن میں بھی وہی منظر دیکھنے کو ملا۔ 2017 کے اسمبلی الیکشن میں ریاست میں سپا و کانگریس نے مل کر الیکشن لڑا تھا اس کے باوجود وہ بھاجپا کے مقابلے شرمناک شکست سے دوچار ہوئیں۔ 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں ایک نیا تجربہ کرتے ہوئے ریاست کی دو بڑی پارٹیوں سماجوادی پارٹی و بہوجن سماج پارٹی نے اپنی دہائیوں پرانی دشمنی بھلاکر اتحاد کیا اور بڑے بڑے دعوے کئے لیکن یہاں بھی ان کے اعداد و شمار کام نہیں آئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہوجن سماج پارٹی نے حسب توقع نتیجہ نہ آنے پر اتحاد سے الگ ہونے اور آئندہ الیکشن تنہا لڑنے کا اعلان کردیا۔ حالانکہ اس اتحاد کے نتیجے میں بہوجن سماج پارٹی کو ایک طرح سے نئی زندگی ملی۔ گزشتہ 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں ایک بھی سیٹ نہ جیتنے والی بی ایس پی کو اس اتحاد کے نتیجے میں 10 پارلیمانی سیٹیں مل گئیں۔ عموماً جلدبازی میں فیصلہ کے لئے مشہور بسپا سپریمو مایاوتی نے نہ تو اتحاد توڑنے کے فیصلہ میں دیر کی اور نہ ہی یہ نتیجہ اخذ کرنے میں تاخیر کی کہ اس الیکشن میں ان کی پارٹی کو ’یادو‘ ووٹ نہیں ملابلکہ وہ اپنے روایتی ووٹوں اور مسلم ووٹوں کی بدولت جیتی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے مسلم- دلت پر فوکس کرنے کا نہ صرف اشارہ کیا بلکہ اپنی پارٹی کا ریاستی صدر بھی مسلم کو بنایا اور متاثر کن مسلم آبادی نہ ہونے کے باوجود ہمیرپور اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں مسلم امیدوار بھی اتارا، اس کے باوجود بسپا امیدوار تیسری پوزیشن پر رہا۔ سماجوادی پارٹی کا امیدوار 2017 کے الیکشن میں بھی دوسرے نمبر پر تھا اور اس ضمنی الیکشن بھی وہ دوسرے نمبر پر ہی رہا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ بی جے پی اور بی ایس پی دونوں کے ووٹ فیصد میں کمی آئی اور سپا امیدوار کے ووٹ فیصد میں اضافہ ہوا۔ نتیجہ پر ان پارٹیوں کا ردعمل بھی حسب توقع رہا۔ بی جے پی کے ریاستی صدر سوتنتردیو سنگھ اور ریاستی جنرل سکریٹری نے ہمیرپور میں بھاجپا امیدوار کی جیت کو جہاں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی پالیسیوں کی جیت قرار دیا وہیں اپوزیشن نے اپنی ہار کی الگ الگ وجوہ بتائیں۔ سماجوادی پارٹی کے ریاستی صدر نریش اتم پٹیل اپنی ہار پر بھی خوش نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ بھاجپا نے ہمیرپور اسمبلی ضمنی الیکشن ایڈمنسٹریشن کے دباؤ سے جیتا ہے، سرکاری وسائل اور حکومت کے وزراء نے الیکشن کو متاثر کیا۔ انھوں نے ایک بات اور کہی۔ ان کے مطابق بھاجپا سیٹ ضرور جیتی ہے لیکن عوام نے اسے اپنے دل سے نکال دیا ہے۔ غالباً سابقہ الیکشن کے مقابلے اس مرتبہ بی جے پی امیدوار کا ووٹ فیصد کم ہونے کی وجہ سے انھوں نے یہ بات کہی ہے۔ دوسری طرف بسپا سپریمو مایاوتی نے ٹوئٹ کرکے صاف لفظوں میں کہا کہ بھاجپا نے ای وی ایم کی بدعنوانی کے سہارے یہ جیت حاصل کی ہے۔ انھوں نے ایک سوال بھی اٹھایا کہ جب یوپی میں 12 سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہونے تھے تو ایک سیٹ پر پہلے الیکشن کیوں کرایا گیا، سبھی سیٹوں پر ایک ساتھ الیکشن کیوں نہیں کرایا گیا۔ ان کے مطابق ان کی حکمت عملی کی طاقت کو دیکھتے ہوئے پارٹی کارکنوں کی حوصلہ شکنی کے لئے منصوبہ بند طریقے سے انھیں تیسری پوزیشن پر دھکیلا گیا۔ انھوں نے کارکنوں سے اپیل بھی کی کہ وہ مزید حوصلے اور پوری لگن سے آئندہ 11 سیٹوں کے ضمنی الیکشن کی تیاری میں مصروف جائیں۔
ہر الیکشن آنے والے الیکشن کا پیمانہ مانا جاتا ہے۔ حالیہ ایک سیٹ کے ضمنی الیکشن کے نتیجہ کے تناظر میں آئندہ اکتوبر میں ہونے والے 11 سیٹوں کے ضمنی الیکشن کو دیکھا جا رہا ہے اور گیارہ سیٹوں کے ضمنی الیکشن کے نتائج کے مطابق ہی سیاسی پارٹیاں 2022 کے یوپی اسمبلی الیکشن کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ کساد بازی، مہنگائی، بیروزگاری،نہ صرف پوری ریاست بلکہ راجدھانی لکھنؤمیں بھی سڑکوں کی بدحالی و اسپتالوں کی بدنظمی، جرائم کی کثرت، خواتین و بچیوں سے زیادتی کی وارداتوں میں اضافہ و دیگر مسائل کے باوجود اگر حکمراں جماعت کا امیدوار جیت رہا ہے تو اپوزیشن صرف یہ کہہ کر اپنا دامن نہیں بچاسکتی کہ یہ جیت ای وی ایم کی بدعنوانی یا سرکاری ذرائع کے غلط استعمال و ایڈمنسٹریشن کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ اپوزیشن یقیناان چیزوں پر بھی نظر رکھے اور جمہوریت کے استحکام کے لئے ہر طرح کی بدعنوانی پر نظر رکھنے کی ضرورت بھی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ اپوزیشن صحیح لائحہ طے ہی نہیں کر پا رہا ہے۔ اپنی ہار اور بی جے پی کی جیت کا تجزیہ کرتے وقت اپوزیشن یہ بھول جاتا ہے کہ بھاجپا کے پس پردہ آر ایس ایس کا ایک مضبوط کیڈر ہے جو پوری محنت اور لگن سے زمینی سطح پر محنت کرتا ہے اور بی جے پی کے لئے ذہن سازی کرتا ہے۔ اسی کیڈر کی طاقت ہے کہ بی جے پی جھوٹ بول کر بھی سچ بولنے والوں کو لاجواب کردیتی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کے پاس صرف بیان بازی ہے۔ اس کے پاس نہ کیڈر ہے، نہ کارکن ہیں۔ وہ نہ عوامی رابطہ مہم چلائی چلاتا ہے، نہ وسیع پیمانے پر ممبرسازی کرتا ہے۔ جن پارٹیوں کے پاس کیڈر تھا اور زمینی سطح پر کام کرنے والی تنظیمیں تھیں ان پارٹیوں کے لیڈروں نے صرف اپنے ذاتی تحفظات کے لئے ان کیڈرس کو غیرفعال کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ان کے پاس کیڈر رہا اور نہ ہی ان کے تحفظات رہے۔ اپوزیشن کی غیرفعالیت کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کا روایتی ووٹ بینک بھی ان سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے اپوزیشن کا یہ ردعمل کہ ان کی ہار کی وجہ ’ای وی ایم کی بدعنوانی یا انتظامیہ کا دباؤ ہے‘ محض دل کو تسلی دینے والی بات ہے۔ اپوزیشن اگر کمزور ہو تو اقتدار غیرمتوازن و غیرمعتدل ہوجاتا ہے اور غیرمعتدل اقتدار عوام کے لئے ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اقتدار کو متوازن رکھنے کے لئے اپوزیشن کا مضبوط ہونا ضروری ہے اور اپوزیشن کو اگر مضبوط ہونا ہے تو اسے بیان بازی کی سیاست چھوڑ کر عوام سے رشتہ مضبوط کرنے، کارکنوں کی تعداد بڑھانے، وسیع پیمانے پر ممبرسازی اور عوامی مسائل کے لئے عملی جد و جہد پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی۔
٭٭

Comments

Popular posts from this blog

Afsana kya hai? افسانہ کیا ہے؟

hayatullah ansari حیات اللہ انصاری