Posts

Showing posts from June, 2021

باغ سنبھلی کی شعری کائنات bagh sambhli ki sheri kainaat

Image
نام کتاب:  باغ سنبھلی کی شعری کائنات نام مصنف:    محمد اویس سنبھلی تبصرہ نگار: محمد راشد خان ندوی (مطبوعہ روزنامہ راشٹریہ سہارا، لکھنؤ. 30-6-19) عروج و زوال ایک فطری عمل ہے جو فطرت کے قوانین کے مطابق ہوتا رہا ہے۔ دہلی سے تقریباً سواسو کلومیٹر کی مسافت پر واقع مشہور قصبہ سنبھل کے بھی گرنے و سنبھلنے کے ایک طویل داستان ہے۔ یہ قصبہ سیاسی، علمی و ادبی اعتبار سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ ہندوستان کے مشہور حکمراں پرتھوی راج نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تھا۔ عہد مغلیہ میں یہ قصبہ شہزادہ ہمایوں کی جاگیر قرار پایا۔ عہد اکبری میں اسے ’سنبھل سرکار‘ کا درجہ حاصل ہوا۔ مغلوں سے پہلے سکندر لودھی نے بھی اسے اپنا پایہئ تخت بنایا تھا۔ اردو شعر و ادب میں بھی سنبھل کو امیتاز حاصل رہا ہے۔ یہاں ایسی علمی و ادبی شخصیات وجود میں آتی رہیں جن کے کارنامے کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے۔ ہری ہر پرشاد شاد مصنف بدائع الفنون، احمد علی حسرتؔ، امیر حسن دوست سنبھلی مولف ’تذکرہ حسینی‘ غلام احمد شوق فریدی، حکیم کبیر علی کبیرؔ، حکیم صغیر علی مروت وغیرہ کے نام سنبھل کے اولین عہد کے شعراء میں شامل ہیں۔ 19 صدی کے او...

senior journalis mohd ali ki yaad me سینئر صحافی محمد علی کی یاد میں

سینئر صحافی محمد علی کی یاد میں  عمر تقریباً چالیس سال، متوسط قد، گیہواں رنگ، چہرے پر مسکراہٹ اور گفتگو میں شوخی و ظرافت۔ یہ ہے پہلا تاثر جو محمد علی صاحب سے پہلی ملاقات کے بعد ذہن پر مرتسم ہوا۔ وہ بہت تھکادینے والی لیکن امید و جوش سے بھری ہوئی ملازمت کا آغاز تھا۔ تھکادینے والی اس لئے کہ اُس وقت جو اولوالامر تھے وہ اپنے میدان کے منجھے ہوئے کھلاڑی تھے جو ”کرم فرمائی“کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اور امید و جوش سے بھری ہوئی ملازمت اس لئے کہ یہ شعبہ صحافت کی ملازمت تھی۔ یہ ذکر ہے روزنامہ راشٹریہ سہارا لکھنؤ کے شروعات کی۔ دسمبر 1998ء میں ہم لوگوں کی جوائننگ ہوئی تھی۔ یہ اترپردیش کا پہلا مکمل کمپیوٹرائزڈ اردو روزنامہ تھا۔ تقریباً دو ماہ تک ٖڈمی نکلی اور 5 فروری 1999ء کو اخبار منظرعام پر آیا۔ ہم لوگوں کو دن میں دو بجے بلایا جاتا اور ایسا کم ہی ہوتا کہ رات کے دو بجے سے پہلے واپسی ہوجائے۔ ہفتہ کی ایک دن کی چھٹی کسی بڑے ”راحتی پیکیج“ سے کم نہیں ہوتی تھی۔ محمد علی صاحب کی ہفتہ واری چھٹی منگل کو ہوتی تھی۔ ہر دوشنبہ کو وہ ’اٹینشن‘ ہوکر ضرور پوچھتے ’سر! کل منگل ہے، میرے لئے کیا ...